نئی طرح سے نبھانے کی دل نے ٹھانی ہے
وگرنہ اس سے محبّت بہت پرانی ہے
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ میں کسی سے سنوں
کہ تو نے بھی غم ِدنیا سے ہار مانی ہے
زمین پہ رہ کے ستارے شکار کرتے ہیں
مزاج اہل ِمحبّت کا آسمانی ہے
ہمیں عزیز ہو کیوں کر نہ شام ِغم کہ یہی
بچھڑنے والے، تیری آخری نشانی ہے
اتر پڑے ہو تو دریا سے پوچھنا کیسا
کہ ساحلوں سے ادھر کتنا تیز پانی ہے
بہت دنوں میں تیری یاد اوڑھ کر اتری
یہ شام کتنی سنہری ہے کیا سہانی ہے
میں کتنی دیر اسے سوچتا رہوں محسن
کہ جیسے اس کا بدن بھی کوئی کہانی ہے
No comments:
Post a Comment