آج یوں موج در موج غم تھم گیا اس طرح غم زدوں کو قرار آگیا
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آ گئی جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
جس کی دید و طلب وہم سمجھے تھے ہم رُو بُرو پھر سرِ رہگزر آگیا
صبحِ فردا کو پھر دل ترسنے لگا، عمر رفتہ ترا اعتبار آگیا
رُت بدلنے لگی رنگِ دل دیکھنا، رنگِ گلشن سے اب حال کھلتا نہیں
زخم چھلکا کوئی یا کوئی گُل کھِلا، اشک اُمڈے کہ ابرِ بہار آگیا
خونِ عُشاق سے جام بھرنے لگے، دل سُلگنے لگے ، داغ جلنے لگے
محفلِ درد پھر رنگ پر آ گئی، پھر شبِ آرزو پر نکھار آگیا
سر فروشی کے انداز بدلے گئے، دعوتِ قتل پر مقتل شہر میں
ڈال کر کوئی گردن میں طوق آگیا، لاد کر کوئی کاندھے پہ دار آگیا
فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا
No comments:
Post a Comment