Thursday, 4 October 2012

ورثہ



بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں

ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے

سارے درد چُھپا لیتی ہیں

روتے روتے ہنس پڑتی ہیں

ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رو لیتی ہیں

خوشی کی خواہش کرتے کرتے

خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں

سو حصّوں میں بٹ جاتی ہیں

گھر کے دروازے پر بیٹھی

اُمیدوں کے ریشم بنتے ….ساری عُمر گنوا دیتی ہیں

میں جو گئے دنوں میں

ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی

اب خود بھی تو

عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگائے

فصل خوشی کی بوتی ہوں

اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں

جانے کیسی رسم ہے یہ بھی

ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں

اپنا مقدّر دے دیتی ہے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets