Saturday, 13 October 2012

نہ جانے ظرف زیادہ تھا کم یا انا زیادہ تھی


نہ جانے ظرف زیادہ تھا کم یا انا زیادہ تھی
کلاہ سر سے تو قد سے قبا زیادہ تھی

رمیدگی تھی تو پھر ختم تھا گریز اس پر
سپردگی تھی تو بے انتہا زیادہ تھی

غرور اس کا بھی کچھ تھا جدائیوں کا سبب
کچھ اپنے سر میں بھی شاید ہوا زیادہ تھی

وفا کی بات الگ پر جسے جسے چاہا
کسی میں‌حسن کسی میں ادا زیادہ تھی

فراز اس سے وفا مانگتا ھے جاں کے عوض
جو سچ کہیں تو یہ قیمت ذرا زیادہ تھی
 

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets