ہاں کچھ تو مزاج اپنا جنوں خیز بہت ہے
اور کچھ یہ رہِ عشق دل آویز بہت ہے
اور کچھ یہ رہِ عشق دل آویز بہت ہے
مرنے کے لیے تیشۂ فرہاد ہے کافی
جینے کے لیے حیلۂ پرویز بہت ہے
جینے کے لیے حیلۂ پرویز بہت ہے
اب کے نہ کوئی قصر نہ ایوان بچے گا
اب کے جو چلی ہے وہ ہوا تیز بہت ہے
اب کے جو چلی ہے وہ ہوا تیز بہت ہے
آنکھوں میں دئیے،دل میں ستارے ہیں فروزاں
ورنہ یہ شبِ تار غم انگیز بہت ہے
ورنہ یہ شبِ تار غم انگیز بہت ہے
کچھ بزم کے آداب بھی ملحوظ تھے اس کو
اور کچھ وہ مزاجاً بھی کم آمیز بہت ہے
اور کچھ وہ مزاجاً بھی کم آمیز بہت ہے
تم رنگ ہو، خوشبو ہو، ذرا دھیان میں رہنا
صحرائے محبت کی ہوا تیز بہت ہے
صحرائے محبت کی ہوا تیز بہت ہے
No comments:
Post a Comment