Tuesday, 13 November 2012

جو ابر بن کے مرے دشت پر برستا ہے



وہ خود بھی پیاس کے سوکھے نگر میں بستا ہے
جو ابر بن کے مرے دشت پر برستا ہے
چھلک نہ جائے یہ پیمانہ اس کشاکش میں
کہ خون موج میں ہے اور دل شکستہ ہے
نظر اٹھاؤں تو منزل کا فاصلہ ہے وہی
پلٹ کے دیکھوں تو پیچھے طویل رستہ ہے
یہ زہر کس نے انڈیلا ہے میری نس نس میں
یہ کون ہے جو مجھے انگ انگ ڈستا ہے
مرا کسی سے تعلق نہیں تو پھر عامر
یہ کس کا درد مری دھڑکنوں میں بستا ہے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets