وہ خود بھی پیاس کے سوکھے نگر میں بستا ہے
جو ابر بن کے مرے دشت پر برستا ہے
جو ابر بن کے مرے دشت پر برستا ہے
چھلک نہ جائے یہ پیمانہ اس کشاکش میں
کہ خون موج میں ہے اور دل شکستہ ہے
کہ خون موج میں ہے اور دل شکستہ ہے
نظر اٹھاؤں تو منزل کا فاصلہ ہے وہی
پلٹ کے دیکھوں تو پیچھے طویل رستہ ہے
پلٹ کے دیکھوں تو پیچھے طویل رستہ ہے
یہ زہر کس نے انڈیلا ہے میری نس نس میں
یہ کون ہے جو مجھے انگ انگ ڈستا ہے
یہ کون ہے جو مجھے انگ انگ ڈستا ہے
مرا کسی سے تعلق نہیں تو پھر عامر
یہ کس کا درد مری دھڑکنوں میں بستا ہے
یہ کس کا درد مری دھڑکنوں میں بستا ہے
No comments:
Post a Comment