اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں
ذرا سی بات پر اتنا بکھر نے کیوں لگی ہوں
ذرا سی بات پر اتنا بکھر نے کیوں لگی ہوں
وہ جس موسم کی اب تک منتظر آنکھیں تھیں میری
اسی موسم سے اب میں اِتنا ڈرنے کیوں لگی ہوں
اسی موسم سے اب میں اِتنا ڈرنے کیوں لگی ہوں
مُجھے نادیدہ رستوں پر سفر کا شوق بھی تھا
تھکن پاؤں سے لپٹی ہے تو مرنے کیوں لگی ہوں
تھکن پاؤں سے لپٹی ہے تو مرنے کیوں لگی ہوں
مُجھے یہ چار دیواری کی رونق مار دے گی
مَیں اِک امکان تھی منزل کا مٹنے کیوں لگی ہوں
مَیں اِک امکان تھی منزل کا مٹنے کیوں لگی ہوں
میں جس کو کم سے کم محسوس کرنا چاہتی تھی
اُسی کی بات کو اِتنا سمجھنے کیوں لگی ہوں
اُسی کی بات کو اِتنا سمجھنے کیوں لگی ہوں
جو میرے دل کی گلیوں سے کبھی گُزرا نہیں تھا
اب اپنے ہاتھ سے خط اس کو لکھنے کیوں لگی ہوں
اب اپنے ہاتھ سے خط اس کو لکھنے کیوں لگی ہوں
بدن کی راکھ تک بھی راستوں میں ناں بچے گی
برستی بارشوں میں یُوں سُلگنے کیوں لگی ہوں
برستی بارشوں میں یُوں سُلگنے کیوں لگی ہوں
وُہی سُورج ہے دُکھ کا پھر یہ ایسا کیا ہُوا ہے
میں پتھر تھی تو آخر اَب پگھلنے کیوں لگی ہوں
میں پتھر تھی تو آخر اَب پگھلنے کیوں لگی ہوں
No comments:
Post a Comment