یہ خوف دل میں نگاہ میں اضطراب کیوں ہے؟
طلوع محشر سے پیشتر یہ عذاب کیوں ہے؟
کبھی تو بدلے یہ ماتمی رُت اداسیوں کی
مری نگاہوں میں ایک سا شہر خواب کیوں ہے؟
کبھی کبھی تیری بے نیازی سے خوف کھا کر
میں سوچتا ہوں تو مرا انتخاب کیوں ہے؟
فلک پہ بکھری سیاہیاں اب بھی سوچتی ہیں
زمیں کےسر پہ چادر آفتاب کیوں ہے؟
ترس گئے ہیں میرے آئینے اُس کے خال و خد کو
وہ آدمی ہے تو اس قدر لاجواب کیوں ہے؟
اسے گنوا کر پھر اسے پانے کا شوق کیسا؟
گناہ کرکے بھی انتظار ثواب کیوں ہے؟
ترے لئے اس کی رحمت بے کنار کیسی؟
مرے لئے اس کی رنجش بے حساب کیوں ہے؟
اسے تو محسن بلا کی نفرت تھی شاعروں سے
پھر اس کے ہاتھوں میں شاعری کی کتاب کیوں ہے؟
No comments:
Post a Comment