Monday, 7 January 2013

سر پھوڑتی پھرتی تھی رخصت کی ہوا ہر سُو


کاجل تیری آنکھوں کا میری آنکھوں میں دَر آئے
میں بات کروں تجھ سے اور شام اتر آئے

کچھ روز تلک آنگن بھیگا ہوا رہتا ہے
بادل کی سی شال اوڑھے جب تو میرے گھر آئے

ہم دیکھتے ہیں تجھ کو بارش کے مہینوں میں
بھیگے ہوئے بالوں میں تو اور نکھر آئے

یہ لوگ میرے دل کو پیارے ہیں بہت لیکن
اس شہر سے کچھ پہلے تو مجھ کو نظر آئے

جس ہاتھ پہ دھرنا تھی قندیلِ حنا ہم کو
ہم اپنی سیاہی بھی اس ہاتھ پہ دھر آئے
سر پھوڑتی پھرتی تھی رخصت کی ہوا ہر سُو
سو ہم تیرے کوچے سے چپ چاپ گزر آئے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets