آسماں کے رنگوں میں رنگ ہے شہابی سا
دھیان میں ہے پھر چہرہ ایک ماہتابی سا
منظروں نے کرنوں کا پیرہن جو پہنا ہے
میں نے اس کا رکھا ہے نام آفتابی سا
تم عجیب قاتل ہو روح قتل کرتے ہو
داغتے ہو پھر ماتھا چاند کی رکابی سا
کون کہہ گیا ہے موت ٹوٹنے سے آتی ہے
گل نے تو بکھر کے باغ کر دیا گلابی سا
پھر ہوا چلی شاید بھولے بسرے خوابوں کی
دل میں اٹھ رہا ہے کچھ شوق اضطرابی سا
تلخیوں نے پھر شاید اک سوال دوہرایا
گھل رہا ہے ہونٹوں میں ذائقہ جوابی سا
حرف پیار کے سارے آ گئے تھے آنکھوں میں
جب لیا تھا ہاتھوں میں چہرہ وہ کتابی سا
بوند بوند ہوتی ہے رنگ و نور کی بارش
جب بھی موسم آیا ہے نیناں میں شرابی سا
No comments:
Post a Comment