تو نے مری وفا کے عوض کچھ درد مثال خیال دیے
تو نے مری وفا کے عوض کچھ درد مثال خیال دیے
میں نے وہی خیال ترے اس ہجر کی لے میں ڈھال دیے
وقت کے آتشدان میں تو نے میرے عکس جلا ڈالے
میں نے بھی اپنے دیوان سے کتنے شعر نکال دیے
ہجر زدہ سب دیکھ رہے ہیں آئینوں کو حیرت سے
کیسے کیسے ان چہروں کو وقت نے خد و خال دیے
دل زدگاں کیوں صحرا صحرا خاک اڑاتے پھرتے ہیں
کس نے ان کے پاؤں میں یہ وحشت کے چکر ڈال دیے
ڈھونڈ رہے ہیں ہم ان کا حل اپنے بے حس چہروں میں
نئے زمانے نے انسان کو جتنے نئے سوال دیے
اس کے تغافل سے ہو گلہ کیا، جس نے میرے شعروں کو
پھول کی خوشبو، چاند کی ٹھنڈک، لفظوں کے سرتال دیے
ڈھلتے ڈھلتے رات ڈھلی تو تاریکی کچھ اور بڑھی
جلتے جلتے بجھ گئے خالد کتنے ماہ مثال دیے
Blogger Wordpress Gadgets
No comments:
Post a Comment