تیرے لیے میں ساری عمر گنوا سکتا ہوں
تو کہہ دے تو یہ دھوکہ بھی کھا سکتا ہوں
تیری چاہت کے جذبوں کی خوشبو لے کر
بجھی ہوئی شاموں کو بھی مہکا سکتا ہوں
لمحوں کے پرکیف سکوت پہ حیراں کیوں ہے
تیرے لیے میں صدیوں کو ٹھہرا سکتا ہوں
کبھی کبھی تو یوں لگتا ہے، تیری خاطر
جنگل کے اس پار اکیلا جا سکتا ہوں
دھول اڑاتی آنکھوں میں جذبوں کو بہا کر
دریاؤں کو صحراؤں میں لا سکتا ہوں
خالد اپنے جذبوں کی زرخیزی سے میں
کشت سخن میں ہریالی مہکا سکتا ہوں
No comments:
Post a Comment