عجیب کُرب میں گزری، جہاں گزری
اگرچہ چاہنے والوں کے درمیاں گزری
تمام عمر جلاتے رہے چراغ ِامید
تمام عمر اُمیدوں کے درمیاں گزری
گزر گئی جو تیرے ساتھ، یادگار ہے وہ
تیرے بغیر جو گزری، بلائے جاں گزری
مجھے سکون میّسر نہیں تو کیا غم ہے
گُلوں کی عمر تو کانٹوں کے درمیاں گزری
عجیب چیز ہے یہ گردش ِزمانہ بھی
کبھی زمیں پہ، کبھی مثل ِآسماں گزری
No comments:
Post a Comment