Thursday 27 September 2012

یہ دسمبر آخری ھوگا



دسمبر مجھ سے بولا تھا 
اب کے میں آؤنگا 
تجھے پھر سے پکارونگا 
اسے میں ساتھ لاؤنگا 
جو تجھ کو بھول بیٹھا ھے 
کہ جس کے ہجر کا لاوا 
تیرے تن میں جلتا ھے 
کہ جس کی یاد کی جھیلوں میں 
 اکثر تم ڈوب جاتے ھو 
کہ جس کے واسطے بیٹھے 
یہاں تم گیت گاتے ھو۔

دسمبر مجھ سے بولا تھا 
سنو تم بھول نہ جانا 
جو یادیں اس نے سونپی ھیں 
جو لمحے اس نے بخشے ھیں 
چاہے یہ زخم سارے 
روح کا ناسور بن جائیں 
انھیں بھرنے نہیں دینا 
انھیں مرنے نہیں دینا 
کہ ان زخموں پہ مرہم 
ایک دن اس نے ہی رکھنا ھے ۔

دسمبر آگیا لیکن 
دسمبر وہ نہیں آیا 
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا 
اسے وہ ساتھ لائے گا 
مجھے پھر سے پکارے گا۔

دسمبر غور سے سن لو 
اسے تم بھی بتا دینا 
یہ سانسیں مچلی بیٹھی ھیں 
اب رخصت پہ جانے کو 
یہ آنکھیں بھی برستی ھیں 
اسے واپس بلانے کو 
مگر یہ جانتے ھیں ہم 
ہمیں وہ بھول بیٹھا ھے۔ 

دسمبر آئے جو اب ھو 
تو اتنا یاد رکھ لینا 
دسمبر اور ہی تھا وہ 
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا 
                             مجھے امیدیں بخشی تھیں
مجھے جینا سکھایا تھا 
بہت سا معصوم تھا میں تو 
جو اتنا بھی نہیں سمجھا کہ 
دسمبر تو دسمبر ھے 
سب ہی کو رلاتا ھے 
ہمیشہ دیر کرتا ھے 
صنم کے طور رکھتا ھے 
صدا آخر میں آتا ھے 

دسمبر اس سے کہہ دینا 
مجھے جتنا بھی تڑپا لے 
کہ تجھ سے ہار مانی ھے 
اب ہم نے یہی ٹھانی ھے 
یوں اس سے دور جانا ھے 
کبھی واپس نہ آنا ھے 

چلو چھوڑو اب جانے دو 
دسمبر کچھ بھی نہ کہنا 
کوئی شکوہ نہیں کرنا 
کہ جس سے یہ گماں گزرے 
اسے ہم یاد کرتے ھیں 
اسی کی راہ تکتے ھیں 
کہ اپنی زندگی کا 
اس ساری کہانی کا 
یہ منظر آخری ھوگا 
یہ دسمبر آخری ھوگا 
یہ دسمبر آخری ھوگا

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets