دسمبر مجھ سے بولا تھا
اب کے میں آؤنگا
تجھے پھر سے پکارونگا
اسے میں ساتھ لاؤنگا
جو تجھ کو بھول بیٹھا ھے
کہ جس کے ہجر کا لاوا
تیرے تن میں جلتا ھے
کہ جس کی یاد کی جھیلوں میں
اکثر تم ڈوب جاتے ھو
کہ جس کے واسطے بیٹھے
یہاں تم گیت گاتے ھو۔
دسمبر مجھ سے بولا تھا
سنو تم بھول نہ جانا
جو یادیں اس نے سونپی ھیں
جو لمحے اس نے بخشے ھیں
چاہے یہ زخم سارے
روح کا ناسور بن جائیں
انھیں بھرنے نہیں دینا
انھیں مرنے نہیں دینا
کہ ان زخموں پہ مرہم
ایک دن اس نے ہی رکھنا ھے ۔
دسمبر آگیا لیکن
دسمبر وہ نہیں آیا
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا
اسے وہ ساتھ لائے گا
مجھے پھر سے پکارے گا۔
دسمبر غور سے سن لو
اسے تم بھی بتا دینا
یہ سانسیں مچلی بیٹھی ھیں
اب رخصت پہ جانے کو
یہ آنکھیں بھی برستی ھیں
اسے واپس بلانے کو
مگر یہ جانتے ھیں ہم
ہمیں وہ بھول بیٹھا ھے۔
دسمبر آئے جو اب ھو
تو اتنا یاد رکھ لینا
دسمبر اور ہی تھا وہ
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا
اب کے میں آؤنگا
تجھے پھر سے پکارونگا
اسے میں ساتھ لاؤنگا
جو تجھ کو بھول بیٹھا ھے
کہ جس کے ہجر کا لاوا
تیرے تن میں جلتا ھے
کہ جس کی یاد کی جھیلوں میں
اکثر تم ڈوب جاتے ھو
کہ جس کے واسطے بیٹھے
یہاں تم گیت گاتے ھو۔
دسمبر مجھ سے بولا تھا
سنو تم بھول نہ جانا
جو یادیں اس نے سونپی ھیں
جو لمحے اس نے بخشے ھیں
چاہے یہ زخم سارے
روح کا ناسور بن جائیں
انھیں بھرنے نہیں دینا
انھیں مرنے نہیں دینا
کہ ان زخموں پہ مرہم
ایک دن اس نے ہی رکھنا ھے ۔
دسمبر آگیا لیکن
دسمبر وہ نہیں آیا
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا
اسے وہ ساتھ لائے گا
مجھے پھر سے پکارے گا۔
دسمبر غور سے سن لو
اسے تم بھی بتا دینا
یہ سانسیں مچلی بیٹھی ھیں
اب رخصت پہ جانے کو
یہ آنکھیں بھی برستی ھیں
اسے واپس بلانے کو
مگر یہ جانتے ھیں ہم
ہمیں وہ بھول بیٹھا ھے۔
دسمبر آئے جو اب ھو
تو اتنا یاد رکھ لینا
دسمبر اور ہی تھا وہ
کہ جس نے مجھ سے بولا تھا
مجھے امیدیں بخشی تھیں
مجھے جینا سکھایا تھا
بہت سا معصوم تھا میں تو
جو اتنا بھی نہیں سمجھا کہ
دسمبر تو دسمبر ھے
سب ہی کو رلاتا ھے
ہمیشہ دیر کرتا ھے
صنم کے طور رکھتا ھے
صدا آخر میں آتا ھے
دسمبر اس سے کہہ دینا
مجھے جتنا بھی تڑپا لے
کہ تجھ سے ہار مانی ھے
اب ہم نے یہی ٹھانی ھے
یوں اس سے دور جانا ھے
کبھی واپس نہ آنا ھے
چلو چھوڑو اب جانے دو
دسمبر کچھ بھی نہ کہنا
کوئی شکوہ نہیں کرنا
کہ جس سے یہ گماں گزرے
اسے ہم یاد کرتے ھیں
اسی کی راہ تکتے ھیں
کہ اپنی زندگی کا
اس ساری کہانی کا
یہ منظر آخری ھوگا
یہ دسمبر آخری ھوگا
یہ دسمبر آخری ھوگا
بہت سا معصوم تھا میں تو
جو اتنا بھی نہیں سمجھا کہ
دسمبر تو دسمبر ھے
سب ہی کو رلاتا ھے
ہمیشہ دیر کرتا ھے
صنم کے طور رکھتا ھے
صدا آخر میں آتا ھے
دسمبر اس سے کہہ دینا
مجھے جتنا بھی تڑپا لے
کہ تجھ سے ہار مانی ھے
اب ہم نے یہی ٹھانی ھے
یوں اس سے دور جانا ھے
کبھی واپس نہ آنا ھے
چلو چھوڑو اب جانے دو
دسمبر کچھ بھی نہ کہنا
کوئی شکوہ نہیں کرنا
کہ جس سے یہ گماں گزرے
اسے ہم یاد کرتے ھیں
اسی کی راہ تکتے ھیں
کہ اپنی زندگی کا
اس ساری کہانی کا
یہ منظر آخری ھوگا
یہ دسمبر آخری ھوگا
یہ دسمبر آخری ھوگا
No comments:
Post a Comment