نجانے کن غم کے جگنوؤں کو چھپائے پھرتی ہے مٹھیوں میں
کئی دنوں سے اداس رہتی ہے ایک لڑکی سہیلیوں میں
کبھی تو یوں ہو محبتوں کی مٹھاس لہجوں میں گھول دیکھیں
گزرتی جاتی ہے عمر ساری اداس باتوں کی تلخیوں میں
ہماری خواہش کے راستوں میں مہک رہی ہے وفا کی خوشبو
محبتوں نے بدل دیئے ہیں تمام منظر اداسیوں میں
ہمیں خبر ہے ہوا مخالف روشنی کے پیامبر کی
چراغ پھر بھی جلائے رکھتے ہیں ہم محبت کےآندھیوں میں
یہ جانتے ہیں تیری فطرت وفا سے ناآشنا ہے پھر بھی
تری طرف سے لگائے رہتے ہیں اپنے دل کو تسلیوں میں
کبھی کبھی تو محبتوں کے یقین لہجے میں گفتگو ہو
کہیں تو میرا بھی نام آئے تری وفا کی کہانیوں میں
No comments:
Post a Comment