کہیں تم قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
تو شاید ہم بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے
اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے ہی دوا تبدیل کر لیتے
تمہارے ساتھ چلنے پر جو دل راضی نہیں ہوتا
بہت پہلے ہم اپنا فیصلہ تبدیل کر لیتے
تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی، اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے
تمہاری طرح جینے کا ہنر آتا، تو پھر شاید
مکان اپنا وہی رکھتے، پتا تبدیل کر لیتے
وہی کردار ہیں تازہ کہانی میں ، جو پہلے بھی
کبھی چہرہ کبھی اپنا قبا تبدیل کر لیتے
جدائی بھی نہ ہوتی ، زندگی بھی سہل ہو جاتی
جو ہم اک دوسرے سے مسئلہ تبدیل کر لیتے
ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم بول اٹھے، ورنہ
گواہی دینے والے واقعہ تبدیل کر لیتے
بہت دھندلا گیا یادوں کی رم جھم میں دل سادہ
وہ مل جاتا تو ہم یہ آئینہ تبدیل کر لیتے
No comments:
Post a Comment