Friday 21 September 2012

کہیں تم قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے



کہیں تم قسمت کا لکھا تبدیل کر لیتے
تو شاید ہم بھی اپنا راستہ تبدیل کر لیتے

اگر ہم واقعی کم حوصلہ ہوتے محبت میں
مرض بڑھنے سے پہلے ہی دوا تبدیل کر لیتے

تمہارے ساتھ چلنے پر جو دل راضی نہیں ہوتا
بہت پہلے ہم اپنا فیصلہ تبدیل کر لیتے

تمہیں ان موسموں کی کیا خبر ملتی، اگر ہم بھی
گھٹن کے خوف سے آب و ہوا تبدیل کر لیتے

تمہاری طرح جینے کا ہنر آتا، تو پھر شاید
مکان اپنا وہی رکھتے، پتا تبدیل کر لیتے

وہی کردار ہیں تازہ کہانی میں ، جو پہلے بھی
کبھی چہرہ کبھی اپنا قبا تبدیل کر لیتے

جدائی بھی نہ ہوتی ، زندگی بھی سہل ہو جاتی
جو ہم اک دوسرے سے مسئلہ تبدیل کر لیتے

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ہم بول اٹھے، ورنہ
گواہی دینے والے واقعہ تبدیل کر لیتے

بہت دھندلا گیا یادوں کی رم جھم میں دل سادہ
وہ مل جاتا تو ہم یہ آئینہ تبدیل کر لیتے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets