چمن میں جب بھی صبا کو گلاب پوچھتے ہیں
تمہاری آنکھ کا احوال، خواب پوچھتے ہیں
کہاں کہاں ہوئے روشن ہمارے بعد چراغ؟
ستارے دیدئہ تر سے حساب پوچھتے ہیں
وہ تشنہ لب بھی عجب ہیں جو موجِ صحرا سے
سراغِ حبس، مزاجِ سراب پوچھتے ہیں
کہاں بسی ہیں وہ یادیں، اجاڑنا ہے جنہیں؟
دلوں کی بانجھ زمیں سے عذاب پوچھتے ہیں
برس پڑیں تری آنکھیں تو پھر یہ بھید کھلا
سوال خود سے بھی اپنا جواب پوچھتے ہیں
ہوا کی ہمسفری سے اب اور کیا حاصل؟
بس اپنے شہر کو خانہ خراب پوچھتے ہیں
جو بے نیاز ہیں خود اپنے حسن سے محسن
کہاں وہ مجھ سے مرا انتخاب پوچھتے ہیں؟
No comments:
Post a Comment