Wednesday, 2 January 2013

میں کہتی تھی سناؤ حال اُس شب کا جب ہم بچھڑے تھے



میں کہتی تھی مجھے ٹُوٹے ستارے آزماتے ہیں
وہ کہتا تھا نہیں اکثر سہارے آزماتے ہیں
میں کہتی تھی کوئی صحرا سُلگتا ہے میرے اندر
وہ کہتا تھا کوئی دریا بِلکتا ہے میرے اندر
میں کہتی تھی مجھے دریا کنارے یاد رہتے ہیں
وہ کہتا تھا مجھے سُلگتے شرارے یاد رہتے ہیں
میں کہتی تھی چلو رشتوں کی گرہ کھول دیتے ہیں
وہ کہتا تھا چلو آنکھوں میں دریا گھول دیتے ہیں
میں کہتی تھی کہانی میں کوئی کردار باقی ہے؟
وہ کہتا تھا محض اک خواب کا انگار باقی ہے
میں کہتی تھی میں خوابوں کا بھلا عنوان کیا رکھوں؟
وہ کہتا تھا اِسے تم ذات کا زندان کہہ دینا
میں کہتی تھی کہ میرے بعد سانس کیسے لیتے ہو
وہ بولا خار سا سینے کو چُھو کر ٹوٹ جاتا ہے
میں کہتی تھی مجھے کچھ پَل تو خود میں سانس لینے دو
وہ بولا تھا کہ جاناں اِس حصارِ ذات سے نکلو
میں کہتی تھی کہ کیا ہوگا اگر یہ وقت تھم جائے
وہ بولا کچھ نہیں بس یہ لمحے صدیاں رقم ہوں گے
میں بولی تم نے میری آنکھوں میں حسرت کوئی دیکھی؟
وہ بولا ہاں سُلگتے زخم کی نسبت کوئی دیکھی
میں بولی میں کہوں کہ میں نے دیکھا کیا اِن آنکھوں میں
بہت ہی درد سے بولا، بُھلا دو جو ہے آنکھوں میں
میں کہتی تھی میرے ساحر کی آنکھیں بولتی کیوں تھیں؟
وہ کہتا ہے تمہیں خاموشیاں پڑھنے کی عادت تھی
میں کہتی تھی میرے لہجے کی شدت بھول جاؤ گے؟
وہ میری بات پر چونکا مگر کُچھ بھی نہیں بولا
میں کہتی، بُت کدوں میں کس طرح دن رات کرتے ہو؟
وہ بولا، بت شکن ہوں میں سو خود کو توڑ دیتا ہوں
میں کہتی تھی کہ ہم تم خاک ٹھہریں گے محبت میں
وہ بولا ہاں یہی سچ ہے نہ میں پارس نہ تُو سونا
میں کہتی تھی کہ آنکھوں سے کُہر کب جائے گی آخر؟
وہ بولا جس لمحے سینے سے آخر سانس جائے گی
میں کہتی تھی سُلگتی ہیں جبینوں میں کیوں تقدیریں؟
وہ بولا آستانوں میں دیے جلتے ہی رہتے ہیں
میں کہتی تھی کہ کب صحرا سے گزرے گا وہ بنجارہ
وہ بولا جب اُسے رشتوں سے کٹ کر ہارنا ہوگا
میں کہتی تھی درختوں کے لِبادے زرد کیوں ٹھہرے؟
وہ بولا کہ خزاں ہونا ہر اِک جنگل کی قسمت ہے
میں کہتی تھی کہ چہروں میں کوئی اپنا نہیں ملتا
وہ بولا کہ کئی چہرے مگر اپنوں میں ملتے ہیں
میں کہتی تھی کناروں پر دِیے اب کیوں نہیں جلتے؟
وہ بولا کہ کناروں نے ہوا سے دوستی کرلی
میں کہتی تھی ہوا کے ہاتھ میں کیا ہے بھلا رکھا؟
وہ بولا جگمگاتے سب دیوں کا فیصلہ رکھا
میں کہتی تھی کہ دریا کی اُداسی سے کہوں گی کیا؟
وہ بولا بس میری آنکھیں اُنہیں پڑھ کر سُنا دینا
میں کہتی تھی میرے آنگن میں کوئی پیڑ جلتا ہے
وہ بولا غور سے دیکھو کہیں نہ ذات ہو میری
میں کہتی تھی کہ زِنداں میں صبا شب بھر نہیں آتی
وہ بولا اور یہاں تو سانس اکثر نہیں آتی
میں کہتی تھی میرے سینے میں سانسیں کم ہیں تیری یاد زیادہ ہے
وہ بولا گر یہی سچ ہے تو تُو برباد زیادہ ہے
میں کہتی تھی تیری سانسوں میں میرا دل دھڑکتا ہے
وہ بولا ہاں میرا دل زَد پہ طوفانوں کی رہتا ہے
میں کہتی تھی کہ آنکھوں میں تیری یہ روشنی کیسی؟
بہت بے ساختہ بولا کہ تیری روح تک میں خود کو پایا ہے
میں کہتی تھی میری آنکھیں تبھی محروم مدھم ہے
وہ تھوڑے وقف سے بولا میرے اندر بسی ہو تم
میں کہتی تھی بھلا کیا پاؤ گے مجھ سے جدا ہوکے
وہ بولا گُم تھا تیرے ساتھ مجھے اب خود سے ملنا ہے
میں کہتی تھی چلو اُنگلی پہ اپنے درد کو گِن لیں
وہ بولا درد کی شِدّت سے شریانیں نہ کٹ جائیں
میں کہتی تھی سناؤ حال اُس شب کا جب ہم بچھڑے تھے
وہ بولا، تھی وہ ایسی شب میں اُس شب ٹوٹ کے رویا
میں کہتی یاد ہے اُس دن تیرے کاندھے پہ روئی میں
وہ بولا آج تک شانے تیرے آنسو سے گھائل ہیں
سُنو پھر تم پہ کیا گزری وہ خوابِ زندگی کھو کر
کہا کل اپنی آنکھوں کو بہت بے جان دیکھا ہے
کہو اُس عشق کی بابت بھلا کیا حَد رہی ہوگی
کہا وہ عشق جیسے رُوح کا سرطان دیکھا ہے
کہو پھر سے بچھڑنے کی تمہیں منظور یہ ہوگا؟
!کہا جینے کی خواہش کو کبھی قربان دیکھا ہے
میں کہتی تیرے نقشِ پا میرے رستوں پہ اب بھی ہیں
وہ بولا میرے رستوں پہ بھی یہ دُکھ درد حائل ہیں
میں کہتی تھی کہ ذرّوں میں بھی کوئی حُسن دیکھا ہے؟
وہ بولا ایک ذرّے میں کئی ماہتاب دیکھے تھے
کہا میں نے کہ کب یہ زندگی خوشبو لگی تم کو؟
وہ بولا بے خیالی میں تجھے جب چھو لیا میں نے
میں کہتی تھی کہ تم نے ڈوبتا سورج کبھی دیکھا؟
وہ بولا ہاں تیری آنکھوں کو اکثر ڈوبتے دیکھا
میں کہتی تھی کوئی چہرہ جو تجھ کو یاد ہو اب تک؟
وہ بولا اِک کنول رخ پر بہت ساحر سی آنکھیں تھیں
میں کہتی خواب کے مقتل کو کیسے جانتے ہو تم
وہ بولا یوں کہ تیری آنکھوں میں اِک شام کاٹی ہے
میں کہتی تھی اذّیت کے کسی لمحے سے واقف ہو؟
وہ بولا جس لمحے جاناں تُو مجھ سے دور ہوتا ہے
میں کہتی تھی بھلا اب داؤ پہ کیا کچھ لگایا ہے؟
وہ بولا کچھ نہیں تھا پاس، میں خود کو ہار آیا ہوں
میں کہتی کب سمندر چپ تیری دھڑکن کو سنتا ہے؟
وہ بولا جب بکھرتا ہے کنارا تیرے لہجے پر
میں کہتی تھی مجھے دن کے کنارے بوجھ لگتے ہیں
وہ بولا ہاں مجھے بھی شام سے اب خوف آتا ہے
میں کہتی خوابوں کی دہلیز پہ کیوں اب بھی جاتے ہو؟
وہ بولا اس لئے کہ نیند کا دَر وا نہیں ملتا
میں کہتی تھی کہ خوابوں کا بدن کیوں کانچ جیسا ہے؟
وہ بولا اس لئے جاناں کہ حسرت کا لہو جھلکے
میں کہتی تھی کبھی ایسا ہوا کہ نیند ٹوٹی ہو؟
وہ بولا ہاں اُسی لمحے، مجھے جب یاد کرتی ہو
کہا میں نے کہ میری جاں، تیری یادیں مُسلسل ہیں
وہ بولا کہ اسی باعث یہ رَتجگے مُسلسل ہیں
میں کہتی تھی کہ آنکھوں سے تمہیں آواز دیتی ہوں
وہ بولا ہاں مجھے آنسو بکھرنے کی کوئی آواز آتی ہے
میں کہتی رات کے سینے پہ میں سر رکھ کے روتی ہوں
وہ بولا ہاں سُنا ہے چاند پچھلی شب کو رویا ہے
میں کہتی تیرے ماتھے پر دُعائیں لکھتی رہتی ہوں
وہ بولا ہاں مجھے سانسیں تیری محسوس ہوتی ہیں
میں کہتی تھی کہ دھڑکن کا ہے دل سے فاصلہ کتنا؟
وہ کچھ پل سوچ کے بولا خدا اور اِک دُعا جتنا
میں کہتی تھی لگاؤ اور دُعا کا رابطہ کیا ہے؟
وہ بولا بس وہی جو روحوں کا جسموں سے ناطہ ہے
میں کہتی روح کو اور جسم کو کیا جانتے ہو تم؟
کہا اُس نے جدائی جسم کی قسمت، محبت روح کی قسمت
میں کہتی تھی، سُنو ساحر مجھے تم سے محبت ہے
وہ بولا جان لے لے گی لگاؤ میں جو شدّت ہے
میں کہتی تھی چلو کاتِب سے کہہ کر مانگ لوں تم کو
وہ میری بات پر چونکا مگر کچھ بھی نہیں بولا
میں کہتی تھی دریچوں پر ہَوا کو کب بلاؤ گے؟
وہ بولا جس لمحے اُمید کی شمعیں جلاؤں گا
میں کہتی تھی کہ میرا شاہِ من اب کیوں نہیں ملتا
وہ کہتا تھا کہ اب دربار دل کا جو نہیں سجتا
میں کہتی تھی تیری آنکھیں بھلا کیوں کانچ جیسی ہیں
وہ بولا اِس لئے جاناں کہ پہلو میں تیرے اتریں
میں کہتی تھی میں شب بھر چاند کے ہمراہ چلتی ہوں
وہ بولا رات بھر تارے تبھی جلتے ہیں بجھتے ہیں
میں کہتی تھی ملے جب ہم وہی قِصّہ تو دوہراؤ
وہ آنکھیں مُوند کر بولا بڑی لمبی کہانی ہے
میں کہتی تھی کہانی کو بھلا کس موڑ پر چھوڑیں گے؟
وہ بولا جب یہ دو کردار رشتہ سانس کا توڑیں گے
میں کہتی تھی کہ ہر لمحہ یہ دل میں وسوسہ کیوں ہے؟
وہ بولا تھا پرندوں سے بھی نازک دل تمہارا ہے
میں کہتی تھی کہ اپنے آپ اُداسی کا میں گوشہ ہوں
وہ بولا غم زدہ ہوں میں مجھے گوشہ نشیں کر دو
میں کہتی تھی تیرے لہجے کی رم جِھم کا سبب کیا ہے؟
وہ بولا اِس لئے کہ جَل ترنگ دل جھیل میں بکھرے
میں کہتی تھی عقیدت کیا؟ عبادت کس کو کہتے ہیں؟
کہا جُھکتی جبینوں کو، اُٹھے ہاتھوں کو کہتے ہیں
میں کہتی تھی جبین و ہاتھ کا تعلق بھلا کیا ہے عبادت میں؟
وہ کہتا تھا کہ لکھی جاچکی دونوں پہ تقدیریں
میں کہتی ہاتھ دو اپنا، جبیں رکھ دوں ہتھیلی پر
وہ کہتا تھا عقیدت یہ عبادت ہی نہ بن جائے
میں کہتی تھی سُنو ساحر میری حسرت تیری آنکھیں
وہ کہتا تھا میں لکھتا ہوں تیری تقدیر یہ آنکھیں
میں کہتی کیا تیرے سینے میں اب بھی زخم جلتے ہیں؟
وہ بولا ہاں کبھی بوجھل کبھی مدھم سے جلتے ہیں
میں کہتی تھی سُنو ساحر یہ سارے غم مجھے دے دو
وہ بولا پھر کہو گی آنکھوں کے سب نَم مجھے دے دو
میں کہتی ہاں اِن آنکھوں میں ہو نَم اچھا نہیں لگتا
کہا سینے سے دُکھ ہوں کم مجھے اچھا نہیں لگتا
میں کہتی تھی جُنوں اور انتہا اچھے نہیں ہوتے
وہ بولا اِن کے بن جذبے کبھی سچے نہیں ہوتے
میں کہتی تھی چلو اِتنا کہو دُکھ میرے بانٹو گے؟
بہت حیرت سے تب بولا، تمہیں کس بات کے دُکھ ہیں؟
میں کہتی بے پناہ یادیں تیری دُکھ درد ہیں میرا
وہ بولا راہ چلتی یادوں کو کیوں گھر بُلاتے تھے؟
میں کہتی تھی تمہاری آنکھوں کو لکھنے کی چاہت تھی
وہ بولا تھا یہ افسانے کتابوں میں ہی سجتے ہیں
میں کہتی تیری چاہت کی فِضا میں پنکھ بھروں کیسے؟
وہ بولا تھا کہ پنکھڑی کُونج کے ٹوٹے ہوئے پَر سے
میں کہتی تھی سمندر میں خوشی کے کس طرح اتروں؟
کہا بے آب ماہی کا سا پیراہن پہن دیکھو
میں کہتی تھی کہ نَس نَس میں لہو کا زہر پھیلا ہے
کہا اِس زہر کا تریاق ہے بس موت کے بس میں
میں کہتی تھی چلو اتنا تو ہوگا درد کی زنجیر ٹوٹے گی
وہ بولا خوابِ زیست کی تیرے تعبیر ٹوٹے گی
میں کہتی تھی تو کیا یہ طے ہے میرے خواب جھوٹے تھے؟
وہ بولا ہاں یہی طے ہے تُہارے لفظ جھوٹے تھے
میں کہتی تھی سَرابی ہم تھے یا دنیا ہی دھوکہ تھی؟
وہ بولا بات ہے اتنی تمہاری پیاس زیادہ تھی
میں کہتی پیاس ایسی ہے کہ دریا خود پُکارے گا
وہ بولا ہار جاؤگی سُنو واپس پلٹ جاؤ
میں کہتی تھی کہ میرے بعد تم تنہا نہ رہ جاؤ؟
وہ بولا حلقہء یاراں بہت ہے ساتھ دینے کو
میں کہتی تھی بہت ممکن یہ دُکھ جان لے جائے
وہ کہتا تھا تمہیں کتنا ہے دُکھ میں آزماؤں گا
میں کہتی تھی کہو اتنا کہاں تک آزماؤگے؟
وہ بولا بس وہاں تک، جب تم اپنی جاں سے جاؤگے
پھر اُس کے بعد کِتنی دیر تک میں کُچھ نہیں بولی

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets