وہ دے رہا ہے دلاسے تو عمر بھر کے مجھے
بچھڑ نہ جائے کہیں پھر اُداس کر کے مجھے
جہاں نہ تُو، نہ تیری یاد کے قدم ہونگے
ڈرا رہے ہیں وہی مرحلے سفر کے مجھے
ہواِ دشت مجھے اب تو اجنبی نہ سمجھ
کہ اب تو بھول گئے راستے بھی گھر کے مجھے
دل ِتباہ ترے غم کو ٹالنے کے لئے
سنا رہا ہے فسانے اِدھر اُُدھر کے مجھے
کچھ اِس لئے بھی میں اُس سے بچھڑ گیا مُحسن
وہ دُور دُور سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے
No comments:
Post a Comment