محبت جب لہو بن کر
رگوں میں سرسرائے تو
کوئی بھولا ہوا چہرہ، اچانک یاد آئے تو
قدم مشکل سے اُٹھتے ہوں
ا رادہ ڈگمگائے تو، کوئی مدھم سے لہجے میں
تمھیں واپس بلائے تو، ٹھہر جانا، سمجھ لینا
کہ اب واپس پلٹنے کا سفر آغاز ہوتا ہے
کبھی تنہائیوں کا درد آنکھوں میں سمائے تو
کوئی لمحہ گزشتہ چاہتوں کا
جب ستائے تو، کسی کی یاد میں رونا تمھیں بھی خون رُلائے تو
اگر تمھارا دل تم سے، کسی دم روٹھ جائے تو
کبھی
انہونیوں کا ڈر پرندوں کو اُڑائے تو
ہوا جب پیڑ سے، زرد سا پتّہ گِرائے تو
ٹھہر جانا، سمجھ لینا
کہ اب واپس پلٹنے کا سفر آغاز ہوتا ہے ۔۔۔
*******************************
میں کہتی تھی مجھے ٹُوٹے ستارے آزماتے ہیں
وہ کہتا تھا نہیں اکثر سہارے آزماتے ہیں
میں کہتی تھی کوئی صحرا سُلگتا ہے میرے اندر
وہ کہتا تھا کوئی دریا بِلکتا ہے میرے اندر
میں کہتی تھی مجھے دریا کنارے یاد رہتے ہیں
وہ کہتا تھا مجھے سُلگتے شرارے یاد رہتے ہیں
میں کہتی تھی چلو رشتوں کی گرہ کھول دیتے ہیں
وہ کہتا تھا چلو آنکھوں میں دریا گھول دیتے ہیں
میں کہتی تھی کہانی میں کوئی کردار باقی ہے؟
وہ کہتا تھا محض اک خواب کا انگار باقی ہے
میں کہتی تھی میں خوابوں کا بھلا عنوان کیا رکھوں؟
وہ کہتا تھا اِسے تم ذات کا زندان کہہ دینا
میں کہتی تھی کہ میرے بعد سانس کیسے لیتے ہو
وہ بولا خار سا سینے کو چُھو کر ٹوٹ جاتا ہے
میں کہتی تھی مجھے کچھ پَل تو خود میں سانس لینے دو
وہ بولا تھا کہ جاناں اِس حصارِ ذات سے نکلو
میں کہتی تھی کہ کیا ہوگا اگر یہ وقت تھم جائے
وہ بولا کچھ نہیں بس یہ لمحے صدیاں رقم ہوں گے
میں بولی تم نے میری آنکھوں میں حسرت کوئی دیکھی؟
وہ بولا ہاں سُلگتے زخم کی نسبت کوئی دیکھی
میں بولی میں کہوں کہ میں نے دیکھا کیا اِن آنکھوں میں
بہت ہی درد سے بولا، بُھلا دو جو ہے آنکھوں میں
میں کہتی تھی میرے ساحر کی آنکھیں بولتی کیوں تھیں؟
وہ کہتا ہے تمہیں خاموشیاں پڑھنے کی عادت تھی
میں کہتی تھی میرے لہجے کی شدت بھول جاؤ گے؟
وہ میری بات پر چونکا مگر کُچھ بھی نہیں بولا
میں کہتی، بُت کدوں میں کس طرح دن رات کرتے ہو؟
وہ بولا، بت شکن ہوں میں سو خود کو توڑ دیتا ہوں
میں کہتی تھی کہ ہم تم خاک ٹھہریں گے محبت میں
وہ بولا ہاں یہی سچ ہے نہ میں پارس نہ تُو سونا
میں کہتی تھی کہ آنکھوں سے کُہر کب جائے گی آخر؟
وہ بولا جس لمحے سینے سے آخر سانس جائے گی
میں کہتی تھی سُلگتی ہیں جبینوں میں کیوں تقدیریں؟
وہ بولا آستانوں میں دیے جلتے ہی رہتے ہیں
میں کہتی تھی کہ کب صحرا سے گزرے گا وہ بنجارہ
وہ بولا جب اُسے رشتوں سے کٹ کر ہارنا ہوگا
میں کہتی تھی درختوں کے لِبادے زرد کیوں ٹھہرے؟
وہ بولا کہ خزاں ہونا ہر اِک جنگل کی قسمت ہے
میں کہتی تھی کہ چہروں میں کوئی اپنا نہیں ملتا
وہ بولا کہ کئی چہرے مگر اپنوں میں ملتے ہیں
میں کہتی تھی کناروں پر دِیے اب کیوں نہیں جلتے؟
وہ بولا کہ کناروں نے ہوا سے دوستی کرلی
میں کہتی تھی ہوا کے ہاتھ میں کیا ہے بھلا رکھا؟
وہ بولا جگمگاتے سب دیوں کا فیصلہ رکھا
میں کہتی تھی کہ دریا کی اُداسی سے کہوں گی کیا؟
وہ بولا بس میری آنکھیں اُنہیں پڑھ کر سُنا دینا
میں کہتی تھی میرے آنگن میں کوئی پیڑ جلتا ہے
وہ بولا غور سے دیکھو کہیں نہ ذات ہو میری
میں کہتی تھی کہ زِنداں میں صبا شب بھر نہیں آتی
وہ بولا اور یہاں تو سانس اکثر نہیں آتی
میں کہتی تھی میرے سینے میں سانسیں کم ہیں تیری یاد زیادہ ہے
وہ بولا گر یہی سچ ہے تو تُو برباد زیادہ ہے
میں کہتی تھی تیری سانسوں میں میرا دل دھڑکتا ہے
وہ بولا ہاں میرا دل زَد پہ طوفانوں کی رہتا ہے
میں کہتی تھی کہ آنکھوں میں تیری یہ روشنی کیسی؟
بہت بے ساختہ بولا کہ تیری روح تک میں خود کو پایا ہے
میں کہتی تھی میری آنکھیں تبھی محروم مدھم ہے
وہ تھوڑے وقف سے بولا میرے اندر بسی ہو تم
میں کہتی تھی بھلا کیا پاؤ گے مجھ سے جدا ہوکے
وہ بولا گُم تھا تیرے ساتھ مجھے اب خود سے ملنا ہے
میں کہتی تھی چلو اُنگلی پہ اپنے درد کو گِن لیں
وہ بولا درد کی شِدّت سے شریانیں نہ کٹ جائیں
میں کہتی تھی سناؤ حال اُس شب کا جب ہم بچھڑے تھے
وہ بولا، تھی وہ ایسی شب میں اُس شب ٹوٹ کے رویا
میں کہتی یاد ہے اُس دن تیرے کاندھے پہ روئی میں
وہ بولا آج تک شانے تیرے آنسو سے گھائل ہیں
سُنو پھر تم پہ کیا گزری وہ خوابِ زندگی کھو کر
کہا کل اپنی آنکھوں کو بہت بے جان دیکھا ہے
کہو اُس عشق کی بابت بھلا کیا حَد رہی ہوگی
کہا وہ عشق جیسے رُوح کا سرطان دیکھا ہے
کہو پھر سے بچھڑنے کی تمہیں منظور یہ ہوگا؟
!کہا جینے کی خواہش کو کبھی قربان دیکھا ہے
میں کہتی تیرے نقشِ پا میرے رستوں پہ اب بھی ہیں
وہ بولا میرے رستوں پہ بھی یہ دُکھ درد حائل ہیں
میں کہتی تھی کہ ذرّوں میں بھی کوئی حُسن دیکھا ہے؟
وہ بولا ایک ذرّے میں کئی ماہتاب دیکھے تھے
کہا میں نے کہ کب یہ زندگی خوشبو لگی تم کو؟
وہ بولا بے خیالی میں تجھے جب چھو لیا میں نے
میں کہتی تھی کہ تم نے ڈوبتا سورج کبھی دیکھا؟
وہ بولا ہاں تیری آنکھوں کو اکثر ڈوبتے دیکھا
میں کہتی تھی کوئی چہرہ جو تجھ کو یاد ہو اب تک؟
وہ بولا اِک کنول رخ پر بہت ساحر سی آنکھیں تھیں
میں کہتی خواب کے مقتل کو کیسے جانتے ہو تم
وہ بولا یوں کہ تیری آنکھوں میں اِک شام کاٹی ہے
میں کہتی تھی اذّیت کے کسی لمحے سے واقف ہو؟
وہ بولا جس لمحے جاناں تُو مجھ سے دور ہوتا ہے
میں کہتی تھی بھلا اب داؤ پہ کیا کچھ لگایا ہے؟
وہ بولا کچھ نہیں تھا پاس، میں خود کو ہار آیا ہوں
میں کہتی کب سمندر چپ تیری دھڑکن کو سنتا ہے؟
وہ بولا جب بکھرتا ہے کنارا تیرے لہجے پر
میں کہتی تھی مجھے دن کے کنارے بوجھ لگتے ہیں
وہ بولا ہاں مجھے بھی شام سے اب خوف آتا ہے
میں کہتی خوابوں کی دہلیز پہ کیوں اب بھی جاتے ہو؟
وہ بولا اس لئے کہ نیند کا دَر وا نہیں ملتا
میں کہتی تھی کہ خوابوں کا بدن کیوں کانچ جیسا ہے؟
وہ بولا اس لئے جاناں کہ حسرت کا لہو جھلکے
میں کہتی تھی کبھی ایسا ہوا کہ نیند ٹوٹی ہو؟
وہ بولا ہاں اُسی لمحے، مجھے جب یاد کرتی ہو
کہا میں نے کہ میری جاں، تیری یادیں مُسلسل ہیں
وہ بولا کہ اسی باعث یہ رَتجگے مُسلسل ہیں
میں کہتی تھی کہ آنکھوں سے تمہیں آواز دیتی ہوں
وہ بولا ہاں مجھے آنسو بکھرنے کی کوئی آواز آتی ہے
میں کہتی رات کے سینے پہ میں سر رکھ کے روتی ہوں
وہ بولا ہاں سُنا ہے چاند پچھلی شب کو رویا ہے
میں کہتی تیرے ماتھے پر دُعائیں لکھتی رہتی ہوں
وہ بولا ہاں مجھے سانسیں تیری محسوس ہوتی ہیں
میں کہتی تھی کہ دھڑکن کا ہے دل سے فاصلہ کتنا؟
وہ کچھ پل سوچ کے بولا خدا اور اِک دُعا جتنا
میں کہتی تھی لگاؤ اور دُعا کا رابطہ کیا ہے؟
وہ بولا بس وہی جو روحوں کا جسموں سے ناطہ ہے
میں کہتی روح کو اور جسم کو کیا جانتے ہو تم؟
کہا اُس نے جدائی جسم کی قسمت، محبت روح کی قسمت
میں کہتی تھی، سُنو ساحر مجھے تم سے محبت ہے
وہ بولا جان لے لے گی لگاؤ میں جو شدّت ہے
میں کہتی تھی چلو کاتِب سے کہہ کر مانگ لوں تم کو
وہ میری بات پر چونکا مگر کچھ بھی نہیں بولا
میں کہتی تھی دریچوں پر ہَوا کو کب بلاؤ گے؟
وہ بولا جس لمحے اُمید کی شمعیں جلاؤں گا
میں کہتی تھی کہ میرا شاہِ من اب کیوں نہیں ملتا
وہ کہتا تھا کہ اب دربار دل کا جو نہیں سجتا
میں کہتی تھی تیری آنکھیں بھلا کیوں کانچ جیسی ہیں
وہ بولا اِس لئے جاناں کہ پہلو میں تیرے اتریں
میں کہتی تھی میں شب بھر چاند کے ہمراہ چلتی ہوں
وہ بولا رات بھر تارے تبھی جلتے ہیں بجھتے ہیں
میں کہتی تھی ملے جب ہم وہی قِصّہ تو دوہراؤ
وہ آنکھیں مُوند کر بولا بڑی لمبی کہانی ہے
میں کہتی تھی کہانی کو بھلا کس موڑ پر چھوڑیں گے؟
وہ بولا جب یہ دو کردار رشتہ سانس کا توڑیں گے
میں کہتی تھی کہ ہر لمحہ یہ دل میں وسوسہ کیوں ہے؟
وہ بولا تھا پرندوں سے بھی نازک دل تمہارا ہے
میں کہتی تھی کہ اپنے آپ اُداسی کا میں گوشہ ہوں
وہ بولا غم زدہ ہوں میں مجھے گوشہ نشیں کر دو
میں کہتی تھی تیرے لہجے کی رم جِھم کا سبب کیا ہے؟
وہ بولا اِس لئے کہ جَل ترنگ دل جھیل میں بکھرے
میں کہتی تھی عقیدت کیا؟ عبادت کس کو کہتے ہیں؟
کہا جُھکتی جبینوں کو، اُٹھے ہاتھوں کو کہتے ہیں
میں کہتی تھی جبین و ہاتھ کا تعلق بھلا کیا ہے عبادت میں؟
وہ کہتا تھا کہ لکھی جاچکی دونوں پہ تقدیریں
میں کہتی ہاتھ دو اپنا، جبیں رکھ دوں ہتھیلی پر
وہ کہتا تھا عقیدت یہ عبادت ہی نہ بن جائے
میں کہتی تھی سُنو ساحر میری حسرت تیری آنکھیں
وہ کہتا تھا میں لکھتا ہوں تیری تقدیر یہ آنکھیں
میں کہتی کیا تیرے سینے میں اب بھی زخم جلتے ہیں؟
وہ بولا ہاں کبھی بوجھل کبھی مدھم سے جلتے ہیں
میں کہتی تھی سُنو ساحر یہ سارے غم مجھے دے دو
وہ بولا پھر کہو گی آنکھوں کے سب نَم مجھے دے دو
میں کہتی ہاں اِن آنکھوں میں ہو نَم اچھا نہیں لگتا
کہا سینے سے دُکھ ہوں کم مجھے اچھا نہیں لگتا
میں کہتی تھی جُنوں اور انتہا اچھے نہیں ہوتے
وہ بولا اِن کے بن جذبے کبھی سچے نہیں ہوتے
میں کہتی تھی چلو اِتنا کہو دُکھ میرے بانٹو گے؟
بہت حیرت سے تب بولا، تمہیں کس بات کے دُکھ ہیں؟
میں کہتی بے پناہ یادیں تیری دُکھ درد ہیں میرا
وہ بولا راہ چلتی یادوں کو کیوں گھر بُلاتے تھے؟
میں کہتی تھی تمہاری آنکھوں کو لکھنے کی چاہت تھی
وہ بولا تھا یہ افسانے کتابوں میں ہی سجتے ہیں
میں کہتی تیری چاہت کی فِضا میں پنکھ بھروں کیسے؟
وہ بولا تھا کہ پنکھڑی کُونج کے ٹوٹے ہوئے پَر سے
میں کہتی تھی سمندر میں خوشی کے کس طرح اتروں؟
کہا بے آب ماہی کا سا پیراہن پہن دیکھو
میں کہتی تھی کہ نَس نَس میں لہو کا زہر پھیلا ہے
کہا اِس زہر کا تریاق ہے بس موت کے بس میں
میں کہتی تھی چلو اتنا تو ہوگا درد کی زنجیر ٹوٹے گی
وہ بولا خوابِ زیست کی تیرے تعبیر ٹوٹے گی
میں کہتی تھی تو کیا یہ طے ہے میرے خواب جھوٹے تھے؟
وہ بولا ہاں یہی طے ہے تُہارے لفظ جھوٹے تھے
میں کہتی تھی سَرابی ہم تھے یا دنیا ہی دھوکہ تھی؟
وہ بولا بات ہے اتنی تمہاری پیاس زیادہ تھی
میں کہتی پیاس ایسی ہے کہ دریا خود پُکارے گا
وہ بولا ہار جاؤگی سُنو واپس پلٹ جاؤ
میں کہتی تھی کہ میرے بعد تم تنہا نہ رہ جاؤ؟
وہ بولا حلقہء یاراں بہت ہے ساتھ دینے کو
میں کہتی تھی بہت ممکن یہ دُکھ جان لے جائے
وہ کہتا تھا تمہیں کتنا ہے دُکھ میں آزماؤں گا
میں کہتی تھی کہو اتنا کہاں تک آزماؤگے؟
وہ بولا بس وہاں تک، جب تم اپنی جاں سے جاؤگے
پھر اُس کے بعد کِتنی دیر تک میں کُچھ نہیں بولی
*******************************
کچھ خواب میری آنکھوں نے پلوُسے یوں باندھ رکھے ھیں
پلکو ں کی منڈیروں پہ اشکو ں نے جیسے تھام رکھے یں
دیکھتی ہوں تم یہی ہو پاس میرے
بے خودی کے سارے موسم سبز بارشوں میں بھیگے میرے پاس پڑے ہیں
تھماری روشن آنکھیں محبت کے نور سے اور جلتی جاتی ہیں
تم اپنی دھن میں جانے کیا کیا کہے جاتے ہو
سات سمندر اپنی ہی دھن میں بہے جاتے ہو
وہی شب و روز کی تفصیل
وہی وقت اور کام کی تاویل
اور پھر میری یاد کی تمثیل
میں ھنس پڑتی ہوں اور سارے منطر بدل جاتے ہیں
یوں لگتا ہے تم نہین وہاں کوئی اور پل ہوتے ہیں
اداس نامراد سی رات آنگن میں اُتر آتی ہے
ہر طرف تمھاری خوشبو سی سرسراتی ہے
میں خواب میں ہی اپنے وھم سے بھاگنے لگتی ہوں
بے قراری سے تمہیں یہاں وہاں ڈھونڈنے لگتی ہوں
شکر خواب تھا کہہ کرخود کو بہلانے لگتی ہوں
پھر
وقت کے ماتھے پر امیدٍ وصال کا ایک پل ٹھہر جاتا ہے
دشتٍ خواب میں لمحہ جیسے پیاس کا ٹھہر جاتا ہے
شاخٍ ہجر پھر کانپنے لگتی ہے
نا امیدی کانٹے بونے لگتی ہیں
نیندوں میں آج تمھاراکہیں نشاں نہ تھا
ڈاک میں بھی تمھارا کہیں اتہ پتہ نہ تھا
کاش یہ خواب میں ہی ہوا ہو
اور مجھے اب آنکھیں کھولنا ہو
پھر سارے منطروں نے بدلنا ہو
منظر بدل گئے جاناں
میں نے یہ کیا سُنا کہ میری آنکھیں حیرت کدہ ہیں
سُن کے آواز تمھاری میری سماعتیں ماتم کدہ ہیں
اٍس برس بھی تم نہ آ سکو گے
اچھا ۔ ۔ کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ کہتے ہوئے میری آواز دھندلا جاتی ہے
اگلے برس تو آ سکو گے ۔ ۔ کہتے ہوئے میری امید سبز ہو جاتی ہے
شاید ۔ ۔ ۔ دیکھو ۔ ۔ ُسنتے ہی انتظار کی ایک فصل اُگنے لگتی ہے
میرے پلوُ سے بندھے سب خواب گرنے لگتے ہیں
پلکو ں کی منڈیروں پہ رکھے اشک ٹوٹنے لگتے ہیں
نہیں جانتی مجھے تم سے یہ کیسی محبت ہے
اٍس رشتے کا نام کیا ہے ؟
اٍسے کب تک نباہ سکو نگی
تمہیں کب تک چاہ سکو نگی
پلکو ں کی منڈیروں پہ اشکو ں نے جیسے تھام رکھے یں
دیکھتی ہوں تم یہی ہو پاس میرے
بے خودی کے سارے موسم سبز بارشوں میں بھیگے میرے پاس پڑے ہیں
تھماری روشن آنکھیں محبت کے نور سے اور جلتی جاتی ہیں
تم اپنی دھن میں جانے کیا کیا کہے جاتے ہو
سات سمندر اپنی ہی دھن میں بہے جاتے ہو
وہی شب و روز کی تفصیل
وہی وقت اور کام کی تاویل
اور پھر میری یاد کی تمثیل
میں ھنس پڑتی ہوں اور سارے منطر بدل جاتے ہیں
یوں لگتا ہے تم نہین وہاں کوئی اور پل ہوتے ہیں
اداس نامراد سی رات آنگن میں اُتر آتی ہے
ہر طرف تمھاری خوشبو سی سرسراتی ہے
میں خواب میں ہی اپنے وھم سے بھاگنے لگتی ہوں
بے قراری سے تمہیں یہاں وہاں ڈھونڈنے لگتی ہوں
شکر خواب تھا کہہ کرخود کو بہلانے لگتی ہوں
پھر
وقت کے ماتھے پر امیدٍ وصال کا ایک پل ٹھہر جاتا ہے
دشتٍ خواب میں لمحہ جیسے پیاس کا ٹھہر جاتا ہے
شاخٍ ہجر پھر کانپنے لگتی ہے
نا امیدی کانٹے بونے لگتی ہیں
نیندوں میں آج تمھاراکہیں نشاں نہ تھا
ڈاک میں بھی تمھارا کہیں اتہ پتہ نہ تھا
کاش یہ خواب میں ہی ہوا ہو
اور مجھے اب آنکھیں کھولنا ہو
پھر سارے منطروں نے بدلنا ہو
منظر بدل گئے جاناں
میں نے یہ کیا سُنا کہ میری آنکھیں حیرت کدہ ہیں
سُن کے آواز تمھاری میری سماعتیں ماتم کدہ ہیں
اٍس برس بھی تم نہ آ سکو گے
اچھا ۔ ۔ کوئی بات نہیں ۔ ۔ ۔ کہتے ہوئے میری آواز دھندلا جاتی ہے
اگلے برس تو آ سکو گے ۔ ۔ کہتے ہوئے میری امید سبز ہو جاتی ہے
شاید ۔ ۔ ۔ دیکھو ۔ ۔ ُسنتے ہی انتظار کی ایک فصل اُگنے لگتی ہے
میرے پلوُ سے بندھے سب خواب گرنے لگتے ہیں
پلکو ں کی منڈیروں پہ رکھے اشک ٹوٹنے لگتے ہیں
نہیں جانتی مجھے تم سے یہ کیسی محبت ہے
اٍس رشتے کا نام کیا ہے ؟
اٍسے کب تک نباہ سکو نگی
تمہیں کب تک چاہ سکو نگی
*******************************
جو میرے دل میں پنہاں ہے
*******************************
پھر وہی درد ساجاگا ہے رگوں میں میری
پھر وہی آہ سی نکلی ہے سینے سے
پھر وہی خواب سے ٹوٹے ہیں میری آنکھوں میں
پھر وہی درد کی تلخی ہے مری باتوں میں
پھر وہی اشک سے ٹھہرے ہیں میری پلکوں پہ
پھر وہی رات سی جیون میں اتر آئی ہے
پھر وہی آخری منظر ہے میری نظروں میں
آج پھر شام ڈھلے
“تم مجھے یاد آئے ہو
*******************************
*******************************
درد رسوا نہ تھا زمانے میں
دل کی تنہائیوں میں بستا تھا
حرف ناگفتہ تھا فسانہ دل
ایک دن جو انہیں خیال آیا
پوچھ بیٹھے : " اداس کیوں ہو تم " ؟
" بس یونہی " مسکرا کے میں نے کہا
دیکھتے دیکھتے سر مژگاں
ایک آنسو مگر ڈھلک آیا
عشق نورس تھا- خام کار تھا دل ؛
بات کچھ بھی نہ تھی مگر ہمدم
اب محبت کا وہ نہیں عالم
آپ ہی آپ سوچتا ہوں میں
دل کو الزام دے رہا ہوں میں
درد بے وقت ہوگیا رسوا
ایک آنسو تھا پی لیا ہوتا
حسن محتاط ہوگیا اس دن
عشق توقیر کھوگیا اس دن
ہائے کیوں اتنا بے قرار تھا دل
*******************************
*******************************
*******************************
محبت جھوٹ ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بےکار لوگوں کا
طلب سوکھے ہوئے پتوں کا بے رونق جزیرہ ہے
خلش دیمک زدہ اوراق پر بوسیدہ سطروں کا ذخیرہ ہے
چلو چھوڑو
کب تک میں اندھیروں کی دھمک میں سانسوں کی ضربوں پہ
چاہت کے بنا رکھ کر سفر کرتا رہوں گا
مجھے احساس ہی کب تھا
کہ تم بھی موسم کے ساتھ پیرہن کے رنگ بدلو گے
چلو چھوڑو
میرا ہونا نہ ہونا ایک برابر ہے
تم اپنے خل و خلود کو آئینے میں پھر بکھرنے دو
تم اپنی آنکھ کی بستی میں پھر سے ایک نیا موسم اتار دو
میرے بکھرے خوابوں کو مرنے دو
پھر نیا مکتوب لکھو
پھر نئے موسم، نئے لفظوں سے اپنا سلسلہ جوڑو
میرے ماضی کی چاہت رائیگان سمجھو
میری یادوں کے کچے رابطے توڑو
چلو چھوڑو
محبت جھوٹی ہے
عہدٍ وفا شغل ہے بیکار لوگوں کا
اپنی خاطر جگے ہو، سوئے ہو
اپنی خاطر ہنسے ہو، روئے ہو
کس لیئے آج کھوئے کھوئے ہو
تم نے آنسو بہت پیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے، صرف میرے ہو کر رہو
حسن ہی حسن ہو، ذہانت ہو
عشق ہوں میں، تو تم میری محبت ہو
تم مری بس مری امانت ہو
جی لیئے،جس قدر جیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو
رہتے ہو رنج وغم کے اندھیروں میں
دُکھ کے، آسیب کے بسیروں میں
کیسے چھوڑوں تمہیں اندھیروں میں
تم کو دے دوں گا سب دیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو
تم ازل سے دُکھوں کے ڈیرے ہو
چاہے خود کو غموں سے گھیرے ہو
جب سے پیدا ہوئے ہو میرے ہو
آج کھولیں گے لب سیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو
اب مجھے اپنے درد سہنے دو
دل کی ہر بات دل سے کہنے دو
مری بانہوں میں خود کو بہنے دو
مدتوں غم خود سیئے اپنے
تم بہت سال رہ لیئے اپنے
اب میرے ، صرف میرے ہو کر رہو
*******************************
کبھی جو کر سکو ایسا
تو کوشیش کر کے دیکھنا ۔۔۔۔۔۔
مجھے ۔۔۔۔۔ میری طرح چاہنا ۔۔۔۔۔
فقظ میری طلب کرنا ۔۔۔۔۔۔
پھر مجھ سے دور ھو جانا
میں کہوں ۔۔۔۔۔ بھول جاؤ مجھے ۔۔۔۔
تم روز دعاؤں میں مانگنا ۔۔۔۔۔۔
میں تم سے ھر رشتہ توڑ لوں
تم سے ھر وہ حق چھین لوں ۔۔۔۔۔
کہ تمھارے پاس اگر وہ ھو
تو نقصاں کسی کا نہ ھو پر ۔۔۔۔۔۔
شاید تم جی لو ۔۔۔۔
پر تم چپ رہ کہ ہر غم پی لو ۔۔۔۔۔
اور ایسا بھی کرنا کہ ۔۔۔۔۔
مگر نہیں ۔۔۔۔
تم ایسا کر نہیں سکتی ۔۔۔۔
میری جگہ خود کو رکھ نہیں سکتی ۔۔۔۔
تم مجھے ۔۔۔۔۔ میری طرح چاہ ھی نہیں سکتی
تو کوشیش کر کے دیکھنا ۔۔۔۔۔۔
مجھے ۔۔۔۔۔ میری طرح چاہنا ۔۔۔۔۔
فقظ میری طلب کرنا ۔۔۔۔۔۔
پھر مجھ سے دور ھو جانا
میں کہوں ۔۔۔۔۔ بھول جاؤ مجھے ۔۔۔۔
تم روز دعاؤں میں مانگنا ۔۔۔۔۔۔
میں تم سے ھر رشتہ توڑ لوں
تم سے ھر وہ حق چھین لوں ۔۔۔۔۔
کہ تمھارے پاس اگر وہ ھو
تو نقصاں کسی کا نہ ھو پر ۔۔۔۔۔۔
شاید تم جی لو ۔۔۔۔
پر تم چپ رہ کہ ہر غم پی لو ۔۔۔۔۔
اور ایسا بھی کرنا کہ ۔۔۔۔۔
مگر نہیں ۔۔۔۔
تم ایسا کر نہیں سکتی ۔۔۔۔
میری جگہ خود کو رکھ نہیں سکتی ۔۔۔۔
تم مجھے ۔۔۔۔۔ میری طرح چاہ ھی نہیں سکتی
*******************************
اس کی آنکھوں نے کہی کیسی کہانی مجھ سے
رات بھر روٹھی رہی رات کی رانی مجھ سے
موسم ہجر میں ممکن ہے میری یاد آےَ
آج تم لے لو کویَ تازہ نشانی مجھ سے
کیا کویَ سوچنا اور کیا کویَ شجرہ پڑھنا
اس کے بارے میں سنو ہر بات، زبانی مجھ سے
سامنے اس کے میں خاموش کھڑی رہتی ہوں
چھین لی وقت نے کیوں شعلہ بیانی مجھ سے
ہجر میں اس کی جلوں راکھ کی صورت بکھروں
کس لیےَ روٹھا ہے ساون کا یہ پانی مجھ سے
وہ دھنک رنگ وہ خوشبو تو کہاں چھوڑ آیَ
پوچھتی ہے یہی ہر شام سہانی مجھھ سے
میں تو ہاتھوں پہ دھنک رنگ لیےَ بیٹھی تھی
ہجر نے چھین لی پوشاک بھی دھانی مجھھ سے
ہجرتوں نے میری پہچان مٹا دی نیہا
اب نہیں ہو گی کویَ نقل مکانی مجھ سے
*******************************
آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو
پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو
موجہ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو
قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہرباں جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو
ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُوبہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو
عارضِ گُل کو چُھوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو
کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انھیں دشت ودمن کی خوشبو
اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں اِنھیں دشت وطن کی خوشبو
*******************************
اسیرِ دشتِ وفا کا نہ ماجرا کہنا
تمام پوچھنے والوں کو بس دعا کہنا
یہ کہنا کہ رات گزری ہے اب بھی آنکھوں میں
تہماری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا
یہ کہنا کہ چاند نکلتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں شب کا اب وہ مزا کہنا
یہ کہنا کہ ہم نے ہی طوفان میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا
یہ کہنا کہ تمہیں یاد کرکے بکھر گیا ہوں میں
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا
تمام پوچھنے والوں کو بس دعا کہنا
یہ کہنا کہ رات گزری ہے اب بھی آنکھوں میں
تہماری یاد کا قائم ہے سلسلہ کہنا
یہ کہنا کہ چاند نکلتا ہے بام پر اب بھی
مگر نہیں شب کا اب وہ مزا کہنا
یہ کہنا کہ ہم نے ہی طوفان میں ڈال دی کشتی
قصور اپنا ہے دریا کو کیا برا کہنا
یہ کہنا کہ تمہیں یاد کرکے بکھر گیا ہوں میں
کہ جیسے ہاتھ سے گر جائے آئینہ کہنا
*******************************
ختم اپنی چاہتوں کا سلسلہ کیسے ہوا
تو جو مجھ میں جذب تھا جدا کیسے ہوا
وہ جو صرف تیرے اور میرے درمیاں کی بات تھی
آئو سوچیں شہر اس سے آشنا کیسے ہوا
چبھ گئی سینے میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں
کیا لکھوں دل ٹوٹنے کا حادثہ کیسے ہوا
جو رگ جاں تھا کبھی ملتا ہے اب رخ پھیر کے
سوچتا ہوں اس قدر وہ بے وفا کیسے ہوا
تو جو مجھ میں جذب تھا جدا کیسے ہوا
وہ جو صرف تیرے اور میرے درمیاں کی بات تھی
آئو سوچیں شہر اس سے آشنا کیسے ہوا
چبھ گئی سینے میں ٹوٹی خواہشوں کی کرچیاں
کیا لکھوں دل ٹوٹنے کا حادثہ کیسے ہوا
جو رگ جاں تھا کبھی ملتا ہے اب رخ پھیر کے
سوچتا ہوں اس قدر وہ بے وفا کیسے ہوا
*******************************
چند لمحے بچے ہیں تیرے میرے ساتھ کے
ممکن ہیں بچھڑ جائیں بنا ملاقات کے
کہاں آنسؤں کی سوغات ہو گی
نئے لوگ ہونگے نئی بات ہو گی
میں ہر حال میں مسکراتی رہوں گی
گر تمہاری محبت جو میرے ساتھ ہو گی
چراغوں کو محفوظ رکھنا آنکھوں میں
بڑی دور تک اندھیری رات ہو گی
مسافر ہوں میں بھی مسافر ہو تم بھی
پھر کہیں کسی موڑ پر ملاقات ہو گی
ممکن ہیں بچھڑ جائیں بنا ملاقات کے
کہاں آنسؤں کی سوغات ہو گی
نئے لوگ ہونگے نئی بات ہو گی
میں ہر حال میں مسکراتی رہوں گی
گر تمہاری محبت جو میرے ساتھ ہو گی
چراغوں کو محفوظ رکھنا آنکھوں میں
بڑی دور تک اندھیری رات ہو گی
مسافر ہوں میں بھی مسافر ہو تم بھی
پھر کہیں کسی موڑ پر ملاقات ہو گی
*******************************
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں چاند
اور تُم چاندنی میری
مگر جب چاند چھپ جائے
کہو پھر چاندنی کیسی؟
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں پھول
اور تُم پھول کی خوشبو
مگر جب پھول مرجھائے
کہو خوشبو بھلا کیسی؟
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں دل
ہو تم دھڑکن!
مگر دل ٹوٹ جائے تو
کہو پھر دھڑکنیں کیسی
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں آس
اور تم زندگی میری
مگر جب آس ٹوٹے تو
کہو پھر زندگی کیسی؟
کہ میں ہوں چاند
اور تُم چاندنی میری
مگر جب چاند چھپ جائے
کہو پھر چاندنی کیسی؟
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں پھول
اور تُم پھول کی خوشبو
مگر جب پھول مرجھائے
کہو خوشبو بھلا کیسی؟
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں دل
ہو تم دھڑکن!
مگر دل ٹوٹ جائے تو
کہو پھر دھڑکنیں کیسی
کہا تھا یاد ہے تم نے
کہ میں ہوں آس
اور تم زندگی میری
مگر جب آس ٹوٹے تو
کہو پھر زندگی کیسی؟
*******************************
محبت کب کتابوں میں لکھی کوئی حکایت ہے؟
محبت کب فراقِ یار کی کوئی شکایت ہے؟
محبت ایک آیت ہے جو نازل ہوتی رہتی ہے
محبت ایک سرشاری ہے، حاصل ہوتی رہتی ہے
محبت تو فقط خود کو سپردِ دار کرنا ہے
انالحق کہ کے اپنے عشق کا اقرار کرنا ہے
محبت پر کوئی نگران کب مامور ہوتا ہے؟
محبت میں کوئی کب پاس اور کب دور ہوتا ہے؟
مرا دل ، عشق کے شعلے میں مدغم ہونے لگتا ہے
محبت کے سمندر میں تلاطم ہونے لگتا ہے
مجھے لگتا ہے جیسے ابرِ اُلفت چھانے والا ہے
میں جس کا منتظر رہتا ہوں ، شاید آنے والا ہے
محبت میری فطرت ہے، محبت میرا جیون ہے
محبت میرے ہاتھوں کی امانت، تیرا دامن ہے
محبت کب فراقِ یار کی کوئی شکایت ہے؟
محبت ایک آیت ہے جو نازل ہوتی رہتی ہے
محبت ایک سرشاری ہے، حاصل ہوتی رہتی ہے
محبت تو فقط خود کو سپردِ دار کرنا ہے
انالحق کہ کے اپنے عشق کا اقرار کرنا ہے
محبت پر کوئی نگران کب مامور ہوتا ہے؟
محبت میں کوئی کب پاس اور کب دور ہوتا ہے؟
مرا دل ، عشق کے شعلے میں مدغم ہونے لگتا ہے
محبت کے سمندر میں تلاطم ہونے لگتا ہے
مجھے لگتا ہے جیسے ابرِ اُلفت چھانے والا ہے
میں جس کا منتظر رہتا ہوں ، شاید آنے والا ہے
محبت میری فطرت ہے، محبت میرا جیون ہے
محبت میرے ہاتھوں کی امانت، تیرا دامن ہے
*******************************
یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتا ب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سے لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمی شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسووں سے ہرا کرو
وہ غزل کی سچی کتا ب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
مجھے اشتہار سے لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کبھی حسن پردہ نشیں بھی ہو ذرا عاشقانہ لباس میں
جو میں بن سنور کے کہیں چلوں مرے ساتھ تم بھی چلا کرو
نہیں بے حجاب وہ چاند سا کہ نظر کا کوئی اثر نہ ہو
اسے اتنی گرمی شوق سے بڑی دیر تک نہ تکا کرو
یہ خزاں کی زرد سی شال میں جو اداس پیڑ کے پاس ہے
یہ تمہارے گھر کی بہار ہے اسے آنسووں سے ہرا کرو
*******************************
وہ جسے سن سکے وہ صدا مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں
اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں
عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں
شاید اس بار اس سے ملاقات ہو
بارے اب سچےّ دل سے دعا مانگ لوں
یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں
اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صداۓ رسا مانگ لوں
جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گری ہے ردا، مانگ لوں
جاگنے کی ہے شب کچھ دعا مانگ لوں
اس مرض کی تو شاید دوا ہی نہیں
دے رہا ہے وہ، دل کی شفا مانگ لوں
عفو ہوتے ہوں آزار سے گر گناہ
میں بھی رسوائی کی کچھ جزا مانگ لوں
شاید اس بار اس سے ملاقات ہو
بارے اب سچےّ دل سے دعا مانگ لوں
یہ خزانہ لٹانے کو آیا ہوں میں
اس کو ڈر ہے کہ اب جانے کیا مانگ لوں
اب کوئی تیر تر کش میں باقی نہیں
اپنے رب سے صداۓ رسا مانگ لوں
جمع کرتا ہوں میں ظلم کی آیتیں
کس کے سر سے گری ہے ردا، مانگ لوں
*******************************
میر ے مولا!
آج ذرا اس تپتے دن کو
ٹھنڈا کر دے
چھوٹا کر دے
اِسے گھٹا دے
بادل کے ٹکڑے سے کہہ کر
بارش کردے
بوندیں آئیں
پوَن چلے
اور سورج گزرے جلدی سے
مغرب آجائے
میرے مالک !
آج بھی اس نے
میری خاطر
مجھ کو پانے کی چاہت میں
تیرا روزہ رکھا ہے۔ ۔ ۔
آج ذرا اس تپتے دن کو
ٹھنڈا کر دے
چھوٹا کر دے
اِسے گھٹا دے
بادل کے ٹکڑے سے کہہ کر
بارش کردے
بوندیں آئیں
پوَن چلے
اور سورج گزرے جلدی سے
مغرب آجائے
میرے مالک !
آج بھی اس نے
میری خاطر
مجھ کو پانے کی چاہت میں
تیرا روزہ رکھا ہے۔ ۔ ۔
*******************************
آج یوں موسم نے دی جشن محبت کی خبر
پھوٹ کر رونے لگے ہیں ، میں محبت اور تم
ہم نے جونہی کر لیا محسوس منزل ہے قریب
راستے کھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
چاند کی کرنوں نے ہم کو اس طرح بوسہ دیا
دیوتا ہونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
آج پھر محرومیوں کی داستانیں اوڑھ کر
خاک میں سونے لگے ہیں میں ،محبت اور تم
کھو گئے انداز بھی ، آواز بھی، الفاظ بھی
خامشی ڈھونے لگے ہیں میں ، محبت اور تم
*******************************
اپنے احساس سے چھو کر مجھے صندل کردو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردو
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو، مجھے پاگل کردو
تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کردو
اس کے سائے میں مرے خواب دھک اُٹھیں گے
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو
دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر
اس قدر برسو میری روح میں جل تھل کر دو
جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے تھل کر دو
تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجل کردو
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کردو
اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کردو
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کردو
میں کہ صدیوں سے ادھورا ہوں مکمل کردو
نہ تمہیں ہوش رہے اور نہ مجھے ہوش رہے
اس قدر ٹوٹ کے چاہو، مجھے پاگل کردو
تم ہتھیلی کو مرے پیار کی مہندی سے رنگو
اپنی آنکھوں میں مرے نام کا کاجل کردو
اس کے سائے میں مرے خواب دھک اُٹھیں گے
میرے چہرے پہ چمکتا ہوا آنچل کر دو
دھوپ ہی دھوپ ہوں میں ٹوٹ کے برسو مجھ پر
اس قدر برسو میری روح میں جل تھل کر دو
جیسے صحراؤں میں ہر شام ہوا چلتی ہے
اس طرح مجھ میں چلو اور مجھے تھل کر دو
تم چھپا لو مرا دل اوٹ میں اپنے دل کی
اور مجھے میری نگاہوں سے بھی اوجل کردو
مسئلہ ہوں تو نگاہیں نہ چراؤ مجھ سے
اپنی چاہت سے توجہ سے مجھے حل کردو
اپنے غم سے کہو ہر وقت مرے ساتھ رہے
ایک احسان کرو اس کو مسلسل کردو
مجھ پہ چھا جاؤ کسی آگ کی صورت جاناں
اور مری ذات کو سوکھا ہوا جنگل کردو
*******************************
باندھ لیں ہاتھ سینے پہ سجالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اُٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
جی میں آتا ہے کہ تعویذ بنا لیں تم کو
پھر تمہیں روز سنواریں تمہیں بڑھتا دیکھیں
کیوں نہ آنگن میں چنبیلی سا لگا لیں تم کو
کبھی خوابوں کی طرح آنکھ کے پردے میں رہو
کبھی خواہش کی طرح دل میں بُلا لیں تم کو
جس طرح رات کے سینے میں ہے مہتاب کا نور
اپنے تاریک مکانوں میں سجا لیں تم کو
کیا عجب خواہشیں اُٹھتی ہیں ہمارے دل میں
کر کے منا سا ہواؤں میں اُچھالیں تم کو
اس قدر ٹوٹ کے تم پہ ہمیں پیار آتا ہے
اپنی بانہوں میں بھریں مار ہی ڈالیں تم کو
*******************************
ھیگی آنکھوں والی لڑکی
میری طرف جب دیکھتی ہے تو
من میں جل تھل کر جاتی ہے
مجھ کو پاگل کرجاتی ہے
میری طرف جب دیکھتی ہے تو
من میں جل تھل کر جاتی ہے
مجھ کو پاگل کرجاتی ہے
*******************************
جب سے یہ پیغام ملا ہے
جاناں! تم آنے والی ہو
موسم نے سارے گھر کی ترتیب بدل کر رکھ ڈالی ہے
چوکھٹ پہ اک چاند بھی آکر بیٹھ گیا ہے
کئی ستارے لاؤنج میں کب سے پڑے ہوئے ہیں
کہتے ہیں کہ
اس رستے سے تم گزرو گے
ننھے منے کئی گلابوں کا کہنا ہے
جتنے دن تم پاس رہو گے
گھر کے ہر کونے میں آکر وہ مہکیں گے
پھولوں نے مل کر سب کونے بانٹ لئے ہیں
جگنوکب سے چھت پہ ، گھرکے
ہر گوشے میں چمک رہے ہیں
سورج اور بارش بھی کل سے سائبان پر ٹکے ہوئے ہیں
دھیمے دھیمے چہک رہے ہیں
شام تو کب سے کئی طرح کے موسم لیکر
اس کمرے میں رُکی ہوئی ہے جس کمرے میں تم ٹھہرو گے
تم آؤ گے تو یہ شام ہزاروں موسم
سندر سندر سجی ہوئی آنکھوں کو دے کر
کھو جائے گی
پھر نہ کبھی واپس آئے گی
اس سے پہلے کہ یہ شام بھی
سارے موسم لے کر مجھ کو خالی کرکے کھو جائے
تم آجاؤ ناں!
آبھی جاؤ۔ ۔ ۔
جاناں! تم آنے والی ہو
موسم نے سارے گھر کی ترتیب بدل کر رکھ ڈالی ہے
چوکھٹ پہ اک چاند بھی آکر بیٹھ گیا ہے
کئی ستارے لاؤنج میں کب سے پڑے ہوئے ہیں
کہتے ہیں کہ
اس رستے سے تم گزرو گے
ننھے منے کئی گلابوں کا کہنا ہے
جتنے دن تم پاس رہو گے
گھر کے ہر کونے میں آکر وہ مہکیں گے
پھولوں نے مل کر سب کونے بانٹ لئے ہیں
جگنوکب سے چھت پہ ، گھرکے
ہر گوشے میں چمک رہے ہیں
سورج اور بارش بھی کل سے سائبان پر ٹکے ہوئے ہیں
دھیمے دھیمے چہک رہے ہیں
شام تو کب سے کئی طرح کے موسم لیکر
اس کمرے میں رُکی ہوئی ہے جس کمرے میں تم ٹھہرو گے
تم آؤ گے تو یہ شام ہزاروں موسم
سندر سندر سجی ہوئی آنکھوں کو دے کر
کھو جائے گی
پھر نہ کبھی واپس آئے گی
اس سے پہلے کہ یہ شام بھی
سارے موسم لے کر مجھ کو خالی کرکے کھو جائے
تم آجاؤ ناں!
آبھی جاؤ۔ ۔ ۔
*******************************
جب غم مری دھڑکن مری باتوں سے عیاں تھا ، تو کہاں تھا
جب چاروں طرف درد کے دریا کا سماں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب ڈھل گئے ہیں سبھی موسم، مرے ہمدم
جب تیرے لئے مرا ہر احساس جواں تھا ، تو کہاں تھا
اب صرف خموشی ہے مقدر کا ستارہ ، مرے یارا
جب لب پہ فقط تیرا فقط تیرا بیاں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب کام دکھا بھی گیا ساون، مرے ساجن
جب چار سو میرے لئے خوشیوں کا سماں تھا، تو کہاں تھا
جب چاروں طرف درد کے دریا کا سماں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب ڈھل گئے ہیں سبھی موسم، مرے ہمدم
جب تیرے لئے مرا ہر احساس جواں تھا ، تو کہاں تھا
اب صرف خموشی ہے مقدر کا ستارہ ، مرے یارا
جب لب پہ فقط تیرا فقط تیرا بیاں تھا، تو کہاں تھا
اب آیا ہے جب کام دکھا بھی گیا ساون، مرے ساجن
جب چار سو میرے لئے خوشیوں کا سماں تھا، تو کہاں تھا
*******************************
جو اس کے سامنے میرا یہ حال آجائے
تو دکھ سے اور بھی ، اس پر جمال آجائے
میرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا
اگر خیال کو تیرا خیال آجائے
ہر ایک شام نئے خواب اس پہ کاڑھیں گے
ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آجائے
انہی دنوں وہ میرے ساتھ چائے پیتا تھا
کہیں سے کاش میرا پچھلا سال آجائے
میں اپنے غم کے خزانے کہاں چھپاؤں گا
اگر کہیں سے کوئی اِند مال آجائے
ہر ایک بار نئے ڈھنگ سے سجائیں تجھے
ہمارے ہاتھ جو پھولوں کی ڈھال آجائے
یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہر نہ جائے وصی
اگر وہ سامنے وقتِ زوال آجائے
تو دکھ سے اور بھی ، اس پر جمال آجائے
میرا خیال بھی گھنگرو پہن کے ناچے گا
اگر خیال کو تیرا خیال آجائے
ہر ایک شام نئے خواب اس پہ کاڑھیں گے
ہمارے ہاتھ اگر تیری شال آجائے
انہی دنوں وہ میرے ساتھ چائے پیتا تھا
کہیں سے کاش میرا پچھلا سال آجائے
میں اپنے غم کے خزانے کہاں چھپاؤں گا
اگر کہیں سے کوئی اِند مال آجائے
ہر ایک بار نئے ڈھنگ سے سجائیں تجھے
ہمارے ہاتھ جو پھولوں کی ڈھال آجائے
یہ ڈوبتا ہوا سورج ٹھہر نہ جائے وصی
اگر وہ سامنے وقتِ زوال آجائے
*******************************
ذرا سا تو ٹھہر اے دل
۔ ۔ ۔ !
۔ ۔ ۔ !
ابھی کچھ کام باقی ہیں
ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں
ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو
مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے
ابھی اس جسم نے مجھ سے
بہت سی بات کرنی ہے
ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو
مجھے اپنے بدن میں روح میں بھرنا ہے
اس کے ساتھ جانے کتنے رستے ہیں
اکٹھے جن پہ چلنا ہے
ابھی کچھ ایسے وعدے ہیں
کہ جن کو پورا کرنے کا کوئی برسوں سے لمحہ ہی میسر آ نہیں پایا
ابھی وہ وقت آنا ہے
ابھی وعدے نبھانے ہیں
ابھی کچھ گیت ایسے ہیں کہ جن کی دھن بنانی ہے
ادھوری سی کسی تصویر کی تکمیل کرنا ہے
کئی کاغذ ہیں وہ جن پر مرے سائن ضروری ہیں
ابھی کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جو برسوں سے
میرے ذہن میں تھیں
سوچ رکھا تھا، اُسے اک دن بتاؤں گا
بتانی ہیں
ابھی کچھ قصے ایسے ہیں کہ جو اس کو سنانے ہیں
کئی کوتاہیاں ایسی بھی ہیں جن پر ندامت ہے
اُسے سب کچھ بتا کر
بوجھ اس دل کا گھٹانا ہے
ابھی کچھ دیر پہلے بس ذرا سی دیر پہلے ہی
ذرا سی بات پر وہ مجھ سے روٹھا تھا
ذرا سا تو ٹھہر اے دل
ابھی اس کو منانا ہے
ابھی ا س کو منانا ہے ۔ ۔ ۔
ابھی آنگن میں مجھ کو موتیے کے کچھ نئے پودے لگانے ہیں
ابھی ان شوخ ہونٹوں کے کئی انداز ہیں جن کو
مرے ہونٹوں پہ کھلنا ہے
ابھی اس جسم نے مجھ سے
بہت سی بات کرنی ہے
ابھی اس دل کے جانے کتنے ہی غم ایسے ہیں جن کو
مجھے اپنے بدن میں روح میں بھرنا ہے
اس کے ساتھ جانے کتنے رستے ہیں
اکٹھے جن پہ چلنا ہے
ابھی کچھ ایسے وعدے ہیں
کہ جن کو پورا کرنے کا کوئی برسوں سے لمحہ ہی میسر آ نہیں پایا
ابھی وہ وقت آنا ہے
ابھی وعدے نبھانے ہیں
ابھی کچھ گیت ایسے ہیں کہ جن کی دھن بنانی ہے
ادھوری سی کسی تصویر کی تکمیل کرنا ہے
کئی کاغذ ہیں وہ جن پر مرے سائن ضروری ہیں
ابھی کچھ باتیں ایسی ہیں کہ جو برسوں سے
میرے ذہن میں تھیں
سوچ رکھا تھا، اُسے اک دن بتاؤں گا
بتانی ہیں
ابھی کچھ قصے ایسے ہیں کہ جو اس کو سنانے ہیں
کئی کوتاہیاں ایسی بھی ہیں جن پر ندامت ہے
اُسے سب کچھ بتا کر
بوجھ اس دل کا گھٹانا ہے
ابھی کچھ دیر پہلے بس ذرا سی دیر پہلے ہی
ذرا سی بات پر وہ مجھ سے روٹھا تھا
ذرا سا تو ٹھہر اے دل
ابھی اس کو منانا ہے
ابھی ا س کو منانا ہے ۔ ۔ ۔
*******************************
کہیں چراغ ہیں روشن ، کہیں پہ مدھم ہیں
تمہارے آنے کے امکان ہیں ، مگر کم ہیں
میں لوٹتے ہوئے چپکے سے چھوڑ آیا تھا
تمہارے تکیے پہ میر ے ہزار موسم ہیں
تمہارے پاؤں کو چھو کر زمانہ جیت لیا
تمہارے پاؤں نہیں ہیں ، یہ ایک عالم ہیں
محبتیں ہوئیں تقسیم تو یہ بھید کھلا
ہمارے حصے میں خوشیاں نہیں ہیں، ماتم ہیں
کچھ اسی لئے بھی ہمیں دُکھ سے ڈرنہیں لگتا
ہماری ڈھال ترے درد ہیں ، ترے غم ہیں
ابھی کہو، تو ابھی، یہ بھی تم کو دے دیں گے
ہمارے پاس جو گنتی کے ایک دو دَم ہیں
ابھی کھلیں گے بھلا کیسے کائنات کے راز
تری کمر میں کئی موڑ ہیں، کئی خم ہیں
تمہارے آنے کے امکان ہیں ، مگر کم ہیں
میں لوٹتے ہوئے چپکے سے چھوڑ آیا تھا
تمہارے تکیے پہ میر ے ہزار موسم ہیں
تمہارے پاؤں کو چھو کر زمانہ جیت لیا
تمہارے پاؤں نہیں ہیں ، یہ ایک عالم ہیں
محبتیں ہوئیں تقسیم تو یہ بھید کھلا
ہمارے حصے میں خوشیاں نہیں ہیں، ماتم ہیں
کچھ اسی لئے بھی ہمیں دُکھ سے ڈرنہیں لگتا
ہماری ڈھال ترے درد ہیں ، ترے غم ہیں
ابھی کہو، تو ابھی، یہ بھی تم کو دے دیں گے
ہمارے پاس جو گنتی کے ایک دو دَم ہیں
ابھی کھلیں گے بھلا کیسے کائنات کے راز
تری کمر میں کئی موڑ ہیں، کئی خم ہیں
*******************************
اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
موسم ، خوشبو، گھر والوں کی باتیں کرکے، اپنے دل کا حال
سبھاؤ سے لکھتی ہے
اب بھی اُس کے سب لفظوں سے کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں
اب بھی اُس کے خط میں موسم گیت سنانے لگ جاتے ہیں
اب بھی دھوپ نکل آتی ہے بادل چھانے لگ جاتے ہیں
اب بھی اُس کے جسم کی خوشبو ہاتھوں سے ہوکر لفظوں تک
اور پھر مجھ تک آجاتی ہے
اب بھی اس کے خط میں اکثر چاند ابھرنے لگ جاتا ہے
شام اترے تو ان لفظوں میں سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے
اب بھی اس کے خط پڑھ کر کچھ مجھ میں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
اب بھی خط کے اک کونے میں وہ اک دیپ جلا دیتی ہے
اب بھی میرے نام پہ اپنے اُجلے ہونٹ بنادیتی ہے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں۔ ۔ ۔
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
موسم ، خوشبو، گھر والوں کی باتیں کرکے، اپنے دل کا حال
سبھاؤ سے لکھتی ہے
اب بھی اُس کے سب لفظوں سے کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں
اب بھی اُس کے خط میں موسم گیت سنانے لگ جاتے ہیں
اب بھی دھوپ نکل آتی ہے بادل چھانے لگ جاتے ہیں
اب بھی اُس کے جسم کی خوشبو ہاتھوں سے ہوکر لفظوں تک
اور پھر مجھ تک آجاتی ہے
اب بھی اس کے خط میں اکثر چاند ابھرنے لگ جاتا ہے
شام اترے تو ان لفظوں میں سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے
اب بھی اس کے خط پڑھ کر کچھ مجھ میں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
اب بھی خط کے اک کونے میں وہ اک دیپ جلا دیتی ہے
اب بھی میرے نام پہ اپنے اُجلے ہونٹ بنادیتی ہے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں۔ ۔ ۔
*******************************
کس قدم ظلم ڈھایا کرتے ہو
یہ جو تم بھول جایا کرتے ہو
کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر
دل کی دھڑکن سنایا کرتے ہو
ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے ہو
کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر
اپنی پلکوں کا سایہ کرتے ہو
کیوں میرے دل میں رکھ نہیں دیتے
کس لئے غم اُٹھایا کرتے ہو
فون پر گیت جو سناتے تھے
اب وہ کس کو سنایا کرتے ہو
آخری خط میں اُس نے لکھا تھا
تم مجھے یاد آیا کرتے ہو
یہ جو تم بھول جایا کرتے ہو
کس کا اب ہاتھ رکھ کے سینے پر
دل کی دھڑکن سنایا کرتے ہو
ہم جہاں چائے پینے جاتے تھے
کیا وہاں اب بھی آیا کرتے ہو
کون ہے اب کہ جس کے چہرے پر
اپنی پلکوں کا سایہ کرتے ہو
کیوں میرے دل میں رکھ نہیں دیتے
کس لئے غم اُٹھایا کرتے ہو
فون پر گیت جو سناتے تھے
اب وہ کس کو سنایا کرتے ہو
آخری خط میں اُس نے لکھا تھا
تم مجھے یاد آیا کرتے ہو
*******************************
وہ کہتی تھی۔ ۔ ۔ !
جائیں جاکر شرٹ اتاریں
دوسری پہنیں
یہ تو میچ نہیں کرتی ہے
جائیں جاکر ٹائی لگائیں
پرَ پَل ٹائی
شوز تو میں نے رات ہی پالش کر ڈالے تھے
پھر یہ آپ نے کیوں پہنے ہیں
دیکھیں Soxبھی ٹھیک نہیں ہیں
پھر جب میں یہ سب کچھ کرکے چلنے لگتا ہے
اس کے ہونٹوں پر Kissکرتا
اور اسے بانہوں میں بھرتا
مصنوعی گھبراہٹ اوڑھ کے سرگوشی میں مجھ سے کہتی
ٹھہریں ٹھہریں
ہوں ۔ ۔ ۔ ں۔ ۔ ۔ یہ خوشبو
تھوڑا سا پرفیوم تو کرلیں
مانا آپ بہت سادہ ہیں
لیکن جاناں!
آفس جانے سے پہلے تو
اپنے بال بنایا کیجئے
اور اب
میلی شرٹ اور ادھڑا کاج
میلے کالر بٹن کھلے ہیں
ٹائی نہیں ہے، شیو بڑھی ہے
بال الجھے ہیں
آنکھیں نیند سے بوجھل ہیںاور
جوتوں پر بھی گرد جمی ہے
اس حلیے میں گھر سے نکلا تو یاد آیا
وہ کہتی تھی۔ ۔ ۔ !
جائیں جاکر شرٹ اتاریں
دوسری پہنیں
یہ تو میچ نہیں کرتی ہے
جائیں جاکر ٹائی لگائیں
پرَ پَل ٹائی
شوز تو میں نے رات ہی پالش کر ڈالے تھے
پھر یہ آپ نے کیوں پہنے ہیں
دیکھیں Soxبھی ٹھیک نہیں ہیں
پھر جب میں یہ سب کچھ کرکے چلنے لگتا ہے
اس کے ہونٹوں پر Kissکرتا
اور اسے بانہوں میں بھرتا
مصنوعی گھبراہٹ اوڑھ کے سرگوشی میں مجھ سے کہتی
ٹھہریں ٹھہریں
ہوں ۔ ۔ ۔ ں۔ ۔ ۔ یہ خوشبو
تھوڑا سا پرفیوم تو کرلیں
مانا آپ بہت سادہ ہیں
لیکن جاناں!
آفس جانے سے پہلے تو
اپنے بال بنایا کیجئے
اور اب
میلی شرٹ اور ادھڑا کاج
میلے کالر بٹن کھلے ہیں
ٹائی نہیں ہے، شیو بڑھی ہے
بال الجھے ہیں
آنکھیں نیند سے بوجھل ہیںاور
جوتوں پر بھی گرد جمی ہے
اس حلیے میں گھر سے نکلا تو یاد آیا
وہ کہتی تھی۔ ۔ ۔ !
*******************************
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
ایک تصویر
اور تصویر یہ بھیگے ہونٹ
ایک صندل کی عنابی پنسل
ایک بے ربط سا اکھڑا ہوا خط
ایک عدد کارڈ
جس کو چھونے سے تیری یاد چلی آئی ہے
اور اس کارڈ میں رکھی ہوئی اکلوتی پلک
جس سے مانوس دعاؤں کی مہک آتی ہے
کسی گمنام سے شاعر کا ادھورا مصرعہ
ایک پازیب سے بچھڑا ہوا اُجلا موتی
اک مرجھائی ہوئی زرد چنبیلی کی کلی
جس میں اب بھی تیری زلفوں کے بھنور لپٹے ہیں
ایک بوسیدہ Question Paper
جس کے کونے پہ لکھا نام ابھی تازہ ہے
شربتی کانچ کی ٹوٹی ہوئی نازک چوڑی
ایک ٹوٹا ہوا ہلکا سا گلابی ناخن
ایک گدلا سا ٹشو پیپر بھی
جس پہ مہکے ہوئے اشکوں کے نشاں زندہ ہیں
یہی دولت ہے یہی کچھ ہے اثاثہ میرا
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
حسرتوں ، سسکیوں ، آہوں میں سمیٹا آنچل
تیری خوشبو میرے اشکوں میں لپٹا آنچل
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
ایک بھیگے ہوئے آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
ایک تصویر
اور تصویر یہ بھیگے ہونٹ
ایک صندل کی عنابی پنسل
ایک بے ربط سا اکھڑا ہوا خط
ایک عدد کارڈ
جس کو چھونے سے تیری یاد چلی آئی ہے
اور اس کارڈ میں رکھی ہوئی اکلوتی پلک
جس سے مانوس دعاؤں کی مہک آتی ہے
کسی گمنام سے شاعر کا ادھورا مصرعہ
ایک پازیب سے بچھڑا ہوا اُجلا موتی
اک مرجھائی ہوئی زرد چنبیلی کی کلی
جس میں اب بھی تیری زلفوں کے بھنور لپٹے ہیں
ایک بوسیدہ Question Paper
جس کے کونے پہ لکھا نام ابھی تازہ ہے
شربتی کانچ کی ٹوٹی ہوئی نازک چوڑی
ایک ٹوٹا ہوا ہلکا سا گلابی ناخن
ایک گدلا سا ٹشو پیپر بھی
جس پہ مہکے ہوئے اشکوں کے نشاں زندہ ہیں
یہی دولت ہے یہی کچھ ہے اثاثہ میرا
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
حسرتوں ، سسکیوں ، آہوں میں سمیٹا آنچل
تیری خوشبو میرے اشکوں میں لپٹا آنچل
ایک آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
ایک بھیگے ہوئے آنچل سے بندھا ہے سب کچھ
*******************************
تری گلے میں جو بانہوں کو ڈال رکھتے ہیں
تجھے منانے کا کیسا کمال رکھتے ہیں
تجھے خبر ہے تجھے سوچنے کی خاطر ہم
بہت سے کام مقدرپہ ٹال رکھتے ہیں
کوئی بھی فیصلہ ہم سوچ کر نہیں کرتے
تمہارے نام کا سکہ اچھال رکھتے ہیں
تمہارے بعد یہ عادت سی ہوگئی اپنی
بکھرتے سوکھتے پتے سنبھال رکھتے ہیں
خوشی سی ملتی ہے خود کو اذیتیں دے کر
سو جان بوجھ کے دل کو نڈھال رکھتے ہیں
کبھی کبھی وہ مجھے ہنس کے دیکھ لیتے ہیں
کبھی کبھی مرا بے حد خیال رکھتے ہیں
تمہارے ہجر میں یہ حال ہو گیا اپنا
کسی کا خط ہو اسے بھی سنبھال رکھتے ہیں
خوشی ملے تو ترے بعد خوش نہیں ہوتے
ہم اپنی آنکھ میں ہر دم ملال رکھتے ہیں
زمانے بھر سے چھپا کر وہ اپنے آنچل میں
مرے وجود کے ٹکڑے سنبھال رکھتے ہیں
کچھ اس لئے بھی تو بے حال ہوگئے ہم لوگ
تمہاری یاد کا بے حد خیال رکھتے ہیں
تجھے منانے کا کیسا کمال رکھتے ہیں
تجھے خبر ہے تجھے سوچنے کی خاطر ہم
بہت سے کام مقدرپہ ٹال رکھتے ہیں
کوئی بھی فیصلہ ہم سوچ کر نہیں کرتے
تمہارے نام کا سکہ اچھال رکھتے ہیں
تمہارے بعد یہ عادت سی ہوگئی اپنی
بکھرتے سوکھتے پتے سنبھال رکھتے ہیں
خوشی سی ملتی ہے خود کو اذیتیں دے کر
سو جان بوجھ کے دل کو نڈھال رکھتے ہیں
کبھی کبھی وہ مجھے ہنس کے دیکھ لیتے ہیں
کبھی کبھی مرا بے حد خیال رکھتے ہیں
تمہارے ہجر میں یہ حال ہو گیا اپنا
کسی کا خط ہو اسے بھی سنبھال رکھتے ہیں
خوشی ملے تو ترے بعد خوش نہیں ہوتے
ہم اپنی آنکھ میں ہر دم ملال رکھتے ہیں
زمانے بھر سے چھپا کر وہ اپنے آنچل میں
مرے وجود کے ٹکڑے سنبھال رکھتے ہیں
کچھ اس لئے بھی تو بے حال ہوگئے ہم لوگ
تمہاری یاد کا بے حد خیال رکھتے ہیں
*******************************
آدھی رات کے سناٹے میں
کس نے فون کیا ہے مجھ کو؟
جانے کس کا فون آیا ہے
فون اُٹھا کر یوں لگتا ہے
اُس جانب کوئی گم سم ، گم سم اُکھڑا اُکھڑا
دھیرے دھیرے کانپ رہا ہے
مہکی ہوئی اک خاموشی
گھپ خاموشی
لیکن اس خاموشی میں بھی گونج رہے ہیں
ٹھنڈی سانسیں ، بارش آنسو
خاموشی سے تھک کر اس نے سانس لیا تو
چوڑی کھنکی۔ ۔ ۔
اُف یہ کھن کھن۔ ۔ ۔
اک لمحے میں سارے بدن میں پھیل گئی ہے
تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے
لیکن اتنے برسوں بعد۔ ۔ ۔
کس نے فون کیا ہے مجھ کو؟
جانے کس کا فون آیا ہے
فون اُٹھا کر یوں لگتا ہے
اُس جانب کوئی گم سم ، گم سم اُکھڑا اُکھڑا
دھیرے دھیرے کانپ رہا ہے
مہکی ہوئی اک خاموشی
گھپ خاموشی
لیکن اس خاموشی میں بھی گونج رہے ہیں
ٹھنڈی سانسیں ، بارش آنسو
خاموشی سے تھک کر اس نے سانس لیا تو
چوڑی کھنکی۔ ۔ ۔
اُف یہ کھن کھن۔ ۔ ۔
اک لمحے میں سارے بدن میں پھیل گئی ہے
تیرے علاوہ کوئی نہیں ہے
لیکن اتنے برسوں بعد۔ ۔ ۔
*******************************
تیرا میرا رشتہ کچھ ایسا اُلجھا ہے
اس کو سلجھاتے سلجھاتے
اپنے دل کی پوریں زخمی کر بیٹھا ہوں
رشتہ شائد سلجھ نہ پائے
لیکن اس کو سلجھانے کی دھن میں جاناں
سارے خواب بُھلا بیٹھا ہوں
اپنا آپ گنوا بیٹھا ہوں
اس کو سلجھاتے سلجھاتے
اپنے دل کی پوریں زخمی کر بیٹھا ہوں
رشتہ شائد سلجھ نہ پائے
لیکن اس کو سلجھانے کی دھن میں جاناں
سارے خواب بُھلا بیٹھا ہوں
اپنا آپ گنوا بیٹھا ہوں
*******************************
اس کی آنکھوں میں محبت کا ستارہ ہوگا
ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہوگا
تم جہاں میرے لئے سیپیاں چنتی ہوگی
وہ کسی اور ہی دنیا کا کنارہ ہوگا
زندگ! اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا
جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارا ہوگا
یہ اچانک جو اجالا سا ہوا جاتا ہے
دل نے چپکے سے ترا نام پکارا ہوگا
عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے
اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارہ ہوگا
یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور
اس نے دریا میں کہیں پاؤں اُتارا ہوگا
کون روتا ہے یہاں رات کے سناتوں میں
میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا
مجھ کو معلوم ہے جونہی میں قدم رکھوں گا
زندگی تیرا کوئی اور کنارہ ہوگا
جو میری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصی
اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہوگا
ایک دن آئے گا وہ شخص ہمارا ہوگا
تم جہاں میرے لئے سیپیاں چنتی ہوگی
وہ کسی اور ہی دنیا کا کنارہ ہوگا
زندگ! اب کے مرا نام نہ شامل کرنا
گر یہ طے ہے کہ یہی کھیل دوبارہ ہوگا
جس کے ہونے سے میری سانس چلا کرتی تھی
کس طرح اس کے بغیر اپنا گزارا ہوگا
یہ اچانک جو اجالا سا ہوا جاتا ہے
دل نے چپکے سے ترا نام پکارا ہوگا
عشق کرنا ہے تو دن رات اسے سوچنا ہے
اور کچھ ذہن میں آیا تو خسارہ ہوگا
یہ جو پانی میں چلا آیا سنہری سا غرور
اس نے دریا میں کہیں پاؤں اُتارا ہوگا
کون روتا ہے یہاں رات کے سناتوں میں
میرے جیسا ہی کوئی ہجر کا مارا ہوگا
مجھ کو معلوم ہے جونہی میں قدم رکھوں گا
زندگی تیرا کوئی اور کنارہ ہوگا
جو میری روح میں بادل سے گرجتے ہیں وصی
اس نے سینے میں کوئی درد اتارا ہوگا
کام مشکل ہے مگر جیت ہی لوں گا اس کو
میرے مولا کا وصی جونہی اشارہ ہوگا
*******************************
زخم مسکراتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
شبنمی ستاروں میں پھول کھلنے لگتے ہیں
چاند مسکراتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
عمر کاٹ دی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
گھنٹیاں سی بجتی ہیں رقص ہونے لگتا ہے
درد جگمگاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
جو ستم کرے آکر سب قبول ہے دل کو
ہم خوشی مناتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
اب بھی تیری آہٹ پر چاند مسکراتا ہے
خواب گنگناتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
تیرے ہجر میں ہم پر اک عذاب طاری ہے
چونک چونک جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
دستکیں سجانے کے منظر نہیں رہتے
راستے سجاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
اب بھی تیری آہٹ پر آس لوٹ آتی ہے
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
درد بھول جاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
شبنمی ستاروں میں پھول کھلنے لگتے ہیں
چاند مسکراتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
عمر کاٹ دی لیکن بچپنا نہیں جاتا
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
گھنٹیاں سی بجتی ہیں رقص ہونے لگتا ہے
درد جگمگاتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
تیری یاد آئے تو نیند جاتی رہتی ہے
خواب ٹوٹ جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
جو ستم کرے آکر سب قبول ہے دل کو
ہم خوشی مناتے ہیں، اب بھی تیری آہٹ پر
اب بھی تیری آہٹ پر چاند مسکراتا ہے
خواب گنگناتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
تیرے ہجر میں ہم پر اک عذاب طاری ہے
چونک چونک جاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
دستکیں سجانے کے منظر نہیں رہتے
راستے سجاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
اب بھی تیری آہٹ پر آس لوٹ آتی ہے
ہم دیے جلاتے ہیں ، اب بھی تیری آہٹ پر
*******************************
ہجر کرتے یا کوئی وصل گُزارا کرتے
ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب
ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب
فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی
بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب
بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے
ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب
عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں
دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب
چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے
مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب
وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن
تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب
خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی
وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب
وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی
نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب
*******************************
*******************************
بتا نجومی! میری ہتھیلی میں پیار کوئی
کہا کہ تجھ پر تو ہو چکا ہے نثار کوئی
بتا ستارہ شناس کوئی سفر ہے لمبا؟
کہا بُلائے گا آسمانوں کے پار کوئی
بتا اُٹھائے گا اس زمیں کی بھی کوئی ڈولی؟
کہا کہ لے جائے گا اِسے بھی کہار کوئی
کہا کہ ساحل کی اُس طرف ہے مرا ٹھکانہ
بتاؤ رہتا ہے کیوں سمندر کے پار کوئی؟
سنو سمندر تمام اپنی رسائی میں ہیں
کہو کہ لہریں بھی کر سکا ہے شمار کوئی
سنا ہے محبت میں بھی ملاوٹ ہے مصلحت کی
کہو کسی کا عدیم کیا اعتبار کوئی
کہو در کون سا ہے، دستک کہاں پہ دے دی؟
عدیم گھڑیاں تو کر رہا تھا شمار کوئی
*******************************
اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی
خزاں رتوں میںبھی گلاب مانگتی ہے زندگی
حقیقتوں کا دشت چاہے جس قدر ہو مستند
کبھی کبھی حسیںخواب مانگتی ہے زندگی
کچھ اس قدر شدید تشنگی ہے دل پہ حکمراں
کہ پھر کوئی نیا سراب مانگتی ہے زندگی
وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لزتیں
نہ جانے کیوںوہی عذاب مانگتی ہے زندگی
پکارتا ہوںجب کبھی تنگ آ کے موت کو
تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی
میںزندگیء نو کو جب پکارتا ہوں، پاس آ
گزشتہ عمر کی کتاب مانگتی ہے زندگی
*******************************
ہوائے یاد نے اتنے ستم کیے اس شب
ہم ایسے ہجر کے عادی بھی رو دیے اس شب
فلک سے بوندیں ستاروں کی طرح گرتی ہوئی
بہک رہی تھی وہ شب جیسے بے پیے اس شب
بھڑکتے جاتے تھے منظر بناتے جاتے تھے
ہوا کے سامنے رکھے ہوئے دیے اس شب
عجب تھے ہم بھی کہ دیوار نا امیدی میں
دریچہ کھول دیا تھا ترے لیے اس شب
چراح بام نہ تھے، شمع انتظار نہ تھے
مگر وہ دل کہ مسلسل جلا کیے اس شب
وہ چاک چاک تمنا،وہ زخم زخم بدن
تری نگاہ دلآرام نے سیے اس شب
خبر ہوئی کہ جلاتا ہے کس طرح پانی
وہ اشک شعلوں کے مانند ہی پیے اس شب
وہ شب کہ جس کے تصور سے جان جاتی تھی
نجانے صبح تلک کس طرح جیے اس شب
*******************************
*******************************
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ہم نے بچتے دیکھا کم
تاریکی کے ہاتھ پہ بیعت کرنے والوں کا
سُورج کی بس ایک کِرن سے گھُٹ جاتا ہے دَم
رنگوں کو کلیوں میں جینا کون سکھاتا ہے!
شبنم کیسے رُکنا سیکھی! تِتلی کیسے رَم!
آنکھوں میں یہ پَلنے والے خواب نہ بجھنے پائیں
دل کے چاند چراغ کی دیکھو، لَو نہ ہو مدّھم
ہنس پڑتا ہے بہت زیادہ غم میں بھی انساں
بہت خوشی سے بھی تو آنکھیں ہو جاتی ہیں نم!
*******************************
*******************************
بتا نجومی! میری ہتھیلی میں پیار کوئی
کہا کہ تجھ پر تو ہو چکا ہے نثار کوئی
بتا ستارہ شناس کوئی سفر ہے لمبا؟
کہا بُلائے گا آسمانوں کے پار کوئی
بتا اُٹھائے گا اس زمیں کی بھی کوئی ڈولی؟
کہا کہ لے جائے گا اِسے بھی کہار کوئی
کہا کہ ساحل کی اُس طرف ہے مرا ٹھکانہ
بتاؤ رہتا ہے کیوں سمندر کے پار کوئی؟
سنو سمندر تمام اپنی رسائی میں ہیں
کہو کہ لہریں بھی کر سکا ہے شمار کوئی
سنا ہے محبت میں بھی ملاوٹ ہے مصلحت کی
کہو کسی کا عدیم کیا اعتبار کوئی
کہو در کون سا ہے، دستک کہاں پہ دے دی؟
عدیم گھڑیاں تو کر رہا تھا شمار کوئی
*******************************
اب اک عجیب سا نصاب مانگتی ہے زندگی
خزاں رتوں میںبھی گلاب مانگتی ہے زندگی
حقیقتوں کا دشت چاہے جس قدر ہو مستند
کبھی کبھی حسیںخواب مانگتی ہے زندگی
کچھ اس قدر شدید تشنگی ہے دل پہ حکمراں
وہ صبح و شام و روز و شب شدید غم کی لزتیں
نہ جانے کیوںوہی عذاب مانگتی ہے زندگی
پکارتا ہوںجب کبھی تنگ آ کے موت کو
تمام عمر کا حساب مانگتی ہے زندگی
میںزندگیء نو کو جب پکارتا ہوں، پاس آ
گزشتہ عمر کی کتاب مانگتی ہے زندگی
*******************************
اب کے اُس کے چہرے پر
دُکھ تھا ۔۔۔۔ بے حواسی تھی
اب کے یوں ملا مجھ سے
یوں غزل سنی ۔۔۔۔۔ جیسے
میں بھی نا شناسا ہوں
وہ بھی اجنبی جیسے
زرد خال و خد اُس کے
سوگوار دامن تھا
اب کے اُس کے لہجے میں
کتنا کھردرا پن تھا
وہ کہ عمر بھر جس نے
شہر بھر کے لوگوں میں
مجھ کو ہم سخن جانا
خود سے مہرباں سمجھا
مجھ کو دلربا لکھا
اب کے سادہ کاغذ پر
سرخ روشنائی سے
اُس نے تلخ لہجے میں
میرے نام سے پہلے
صرف ” بے وفا “ لکھا !!!!
*******************************
*******************************
تم مجھے بس یہ دعا دینا
خطا کوئی جو ہو جائے
کبھی لہجہ بدل جائے
ضروری بات رہ جائے
میرا چہرا بدل جائے
اگر پہچان نہ پاؤں
تمہیں گر جان نہ پاؤں
دعا دینا
محبت ایک دعا ہے
*******************************
*******************************
بے سبب اداسی تھی
دُکھ تھا ۔۔۔۔ بے حواسی تھی
اب کے یوں ملا مجھ سے
یوں غزل سنی ۔۔۔۔۔ جیسے
میں بھی نا شناسا ہوں
وہ بھی اجنبی جیسے
زرد خال و خد اُس کے
سوگوار دامن تھا
اب کے اُس کے لہجے میں
کتنا کھردرا پن تھا
وہ کہ عمر بھر جس نے
شہر بھر کے لوگوں میں
مجھ کو ہم سخن جانا
خود سے مہرباں سمجھا
مجھ کو دلربا لکھا
اب کے سادہ کاغذ پر
سرخ روشنائی سے
اُس نے تلخ لہجے میں
میرے نام سے پہلے
صرف ” بے وفا “ لکھا !!!!
*******************************
*******************************
*******************************
تم مجھے بس یہ دعا دینا
خطا کوئی جو ہو جائے
کبھی لہجہ بدل جائے
ضروری بات رہ جائے
میرا چہرا بدل جائے
اگر پہچان نہ پاؤں
تمہیں گر جان نہ پاؤں
دعا دینا
محبت ایک دعا ہے
تم مجھے بس یہ دعا دینا
*******************************
1 comment:
lajawaab intekhab...
Post a Comment