Friday 30 May 2014

Hum Dasht-e-junoon k sodaai




Hum Dasht-e-junoon k sodaai
hum Gard-e-safar hum Naqash-e-qadam

Hum soz-e-Talab hum Taraz-e-Fughaan
hum Ranj-e-chaman hum Fasal-e-Khizaa'n

Hum Heyrat-o-hasrat hum Yaas-o-Alam
Hum dasht-e-junoon k sodaai

yeh dasht-e-junoon yeh pagal pan
yeh peecha karti ruswaai

yeh Ranj-o-Alam yeh Huzn-0-malal
yeh naala-e-shab yeh souz-e-kamal

Dil men kahin bey'naam chubhan
or Had-e-nazar tak Tanhai

Hum Dasht-e-junoon k sodaai

yeh Rooh-0-badan ka rishta tha
kaii saal huey woh toot gaya

Ab dil ki Dharkan Ruk jaaye
Ab saaans ki dori Tootey bhi

HUm dasht-e-junoon k sodaai ...... !!

تری چاہت کا کچا رنگ



تری چاہت کا کچا رنگ
دھنک رنگوں میں اُترا تھا
مرے بے داغ آنچل پر
خوشی کے پر لگا کر میں
چلی تھی آسماں چھونے
مگر موسم کی سختی میں
کسی بادِ مخالف نے
مرے پر ہی نوچ ڈالے

تری چاہت کا کچا رنگ
مری آنکھوں میں اُترا تھا
ستاروں سی چمک لے کر
گلابی رنگ کے سپنے
دکھا کے چار دن مجھ کو
ٓاُڑا کر لے گیا نیندیں

تری چاہت کا کچا رنگ
مرے چہرے پہ اُترا تھا
گلوں کی شوخیاں لے کر
جبیں تھی چاند سی روشن
تبسم تھا لبوں پہ بھی
بہت اترا رہی تھی میں
یونہی شرما رہی تھی میں
کوئی رہزن کوئی دُشمن
چُرا کر لے گیا خوشیاں
مجھے بس دے گیا ہے وہ
خزاں کا زرد پیلا رنگ
مرے چہرے سے اُترا ہے

تری چاہت کا کچا رنگ
مرے دل پر بھی اُترا تھا
سنہری تھے ترے وعدے
ترے خوش کن ارادے تھے
ترا لہجہ تری باتیں
ترے ہی غم تری خوشیاں
مجھے بس یاد تھا تو ہی
میں خود کو بھول بیٹھی تھی
مگر تو نے غضب کیسا
مرے اس دل پہ ڈھایا ہے
مجھے دل سے بھلایا ہے
غموں کے سرمئی سائے
مرے دل پہ یوںچھائے ہیں
مرے دل سے بھی اُترا ہے
تری چاہت کا کچا رنگ.......!!

ﺳﻨﻮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮ














ﺳﻨﻮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮ
ﻣﺤﺒﺖ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﮟ
ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﺭﻧﮓ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮭﻮ
ﺟﻮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺳﻮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮕﺎﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺍﺗﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮦ ﺍﻟﻔﺎﻅ ﺟﻮ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺯﺑﺎﮞ ﺗﮏ ﺁ ﺗﻮ
ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﺩﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺱ ﺑﮯ ﺑﺴﯽ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﮐﻮ ﺗﺼﻮﯾﺮ
ﮐﺮ ﺩﻭ ﻧﺎﮞ!
ﻣﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﺍﮎ ﺍﯾﺴﯽ ﻧﻈﻢ ﺑﮭﯽ ﺗﺤﺮﯾﺮ
ﮐﺮ ﺩﻭ ﻧﺎﮞ!
ﺟﺴﮯ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺳﻨﺎﻭﮞ ﺗﻮ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ
ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﻮﮞ

Thursday 29 May 2014

ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺷﺐ ﺑﮭﺮ ﺭﻓﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ



ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﺘﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ
ﮐﯽ ﺷﻔﻖ ﺍﺏ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺩﺭﺧﺘﻮﮞ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ
ﯾﺎﺭ ﮐﻮ ﺑﮭﯿﺠﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺭﻭﻣﺎﻝ ﭘﺮ
ﺳﺮﺥ ﺭﯾﺸﻢ ﮐﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﺎﻡ ﺳﮯ
ﺭﻧﮓ ﻭ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﮐﮯ ﻣﮩﮑﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﻡ ﺳﮯ
ﮨﺠﺮ ﮐﯽ ﺻﺒﺢ ﺳﮯ ، ﻭﺻﻞ ﮐﯽ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ
ﮔﻔﺘﮕﻮ ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ
ﻣﺮﮮ ﺟﯿﺴﺎ ﭨﻮﭨﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺧﻮﺍﺏ ﺷﺐ ﺑﮭﺮ ﺭﻓﻮ
ﮐﺮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ

کیلنڈر




آج یونہی شام کو ‘ اچانک
خیال آیا جانے کونسی تاریخ ہے
کیلنڈر کے پاس ‘ جاکر قدم‘ تھم سے گئے
اور ذہن ‘ چونک گیا
"یہ تو کچھ آشنا سی تاریخ ہے
میں نے ستون کو تھام کر سوچا
یہ تو وہی‘ جو مدتوں
دل پر جمی رہی اور۔۔
"اس حسیں شام کی مہک
جب تمہاری ‘
باتوں کا سحر ‘ تمہارے سراپے کا نکھار
میرے رگ و پے میں اتر کر‘
مرے دل کو ‘اک درد۔۔۔۔سا دے گیا
مگر اب۔۔۔۔(میں نے سوچا)
اب تو زمانہ بیت گیا۔۔۔کچھ یاد کئے
مگریونہی ‘ کبھی کبھی۔۔
کیلنڈر کے پاس جاکر۔۔۔
آنکھیں برسوں پہلے کے منظر
کو دہراتی ہیں۔۔۔

میرے تخیل میں کوئی آکر



نہ آنکھیں دیکھ پائی ہیں
نہ کانوں میں
مدھر آواز نے جادو جگایا ہے

مگر
احساس کی ہر پور میں
میرے تخیل میں
کوئی آکر دبے پاؤں
اجالے بانٹ جاتا ہے

یہ کیا کم ہے
کوئی تو ہے
جو میرے ساتھ ہے
اس ساتھ کا احساس
کتنا روح پرور ہے

کوئی تو ہے
جسے میرے تخیل میں
چلے آنے کی عادت ہے

Wednesday 28 May 2014

Aur ab Is baat ko guzrey zamaney ho gaye kitney



Bohat arsa hua ik din...
Bataya tha mujhey us ney...
Banana kuch nahin aata...
Agar main kuch banati hoon...
To bas chaaye banati hoon...
Peo gey na...
Aur main is baat par muskrata hi raha tha keh ...
Banana kuch nahin aata...
Banati hoon to bas chaaye...
Mujhey chaaye sey uljhan hai...
Nahin peeta nahin peeta...
Aur ab Is baat ko guzrey zamaney ho gaye kitney...
Nahin maloom mujh ko keh...
Wo kaisi hai kahan pey hai...
Magar ab chaaye...
Barri kasrat sey peeta hoon...
Barri hasrat sey peeta hoon........!!!!

وہ شخص .... مر گیا کل شب











جس کی آنکھ میں ، نمی سی تھی , جسکا چہرہ ، ملول رہتا تھا
وہی ، جو ... بے توجہی کے سبب ہمیشہ ____ "بے اصول رہتا تھا"

وہ اک شخص ...... جانتی ہو تم ....؟

"وہ" ..... جسے نیند بہت پیاری تھی ....
"وہ" ..... جو ایک خواب کے اثر میں تھا ....
"وہ" .... جو لا علم رہا منزل سے ....
"وہی" .... جو عمر بھر سفر میں تھا ....
وہ اک شخص ...... جانتی ہو تم ....؟

جس نے خوشبو کی تمنا کی تھی ، اور ... روندھے گلاب
پائے تھے
جس نے ، اپنی ہی نیکیوں کے سبب ، رفتہ رفتہ .... عذاب
پائے  تھے
"وہ اک شخص" ...... جانتی ہو تم ....؟

وہ جس کا دین ، بس محبت تھا ، وہ جس کا ایمان .... وفائیں تھیں
وہ ... جس کی سوچ بھی پریشان تھی ، وہ جس کے لب پر فقط دعائیں تھیں
وہی ، الجھی ہوئی .... "بے چین سی باتوں والا"
محبتوں سے .... ڈر گیا کل شب
ہجر کے دکھ کو سہتے سہتے ، وہ شخص
مر گیا _____ کل شب

آؤ .... اب لاش اٹھاؤ اس کی ، وہ جو "تیرے اثر میں رہتا تھا"
آؤ .... اب سوگ مناؤ اس کا ، وہ جو ... سورج کو قمر کہتا تھا

محبتوں سے ، ڈر گیا کل شب ......
وہ شخص .... مر گیا کل شب

کسی کی یاد میرے گھر کی دیواروں پہ ننگے پاؤں اکثر چلنے لگتی ہے



کسی یاد میں گم صم، تھکی ہاری
ستاروں کے نگر سے شام جب بھی لوٹ آتی ہے
مری آنکھوں کے ویراں صحن میں سر کو جھکائے چلنے لگتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
مرے کانوں میں جب بھی وصل کے لمحوں کی
اک آہٹ سی آتی ہے
تو میری، ہجر آلودہ سی پلکوں پر ستارے جاگ اٹھتے ہیں
کسی کی شکل بنتی اور بکھرتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
کبھی جب ان گنت صدیوں سے چلتے قافلوں کا سلسلہ
مجھ تک پہنچتا ہے
توہجرت پاؤں سے سرگوشیاں سی کرنے لگتی ہیں
اداسی بڑھنے لگتی ہے
میں جب بھی ریگزاروں کی کہانی پڑھنے لگتا ہوں
کسی کی یاد میرے گھر کی دیواروں پہ
ننگے پاؤں اکثر چلنے لگتی ہے
اداسی بڑھنے لگتی ہے
اداسی جب بھی بڑھتی ہے
تو مجھ کو دل کے بے مقصد دریچوں، طاقچوں سے جھانکتی ہے
اور مرے ہونٹوں کی خاموشی سے مجھ کو مانگتی ہے
مرے سینے پہ پھر یہ وحشیانہ رقص کرتی ہے
یہ میرے جسم کے کتبے پہ کوئی لفظ لکھتی ہے
اداسی روز بڑھتی ہے ۔۔!!!

Tuesday 27 May 2014

مجبوریاں

Image

تم مجھے بھول کیوں نہیں جاتے



مجھے بس اِتنا یاد ہے !
جب میں نے کہا تھا
جاناں !
میں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا
خواہ وہ کیسی بھی ہو ؟
یہ سُن کر اُس نے میرا ہاتھ تھام لیا تھا
اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی
میرے ہاتھ پر دو نیم گرم قطرے گرے تھے
وہ میرے سینے سے لگ کر بولی تھی
مَیں جانتی ہوں ۔!!
تم مجھ سے بہت محبت کرتے ھو نا !
بھلے وہ دیکھ نہ پائی تھی مگر
آنکھیں تو میری بھی بھر آئیں تھیں
مگر یہ آج کیا ہو گیا ہے ؟
کہ ہمیں ترکِ تعلق نے آ گھیرا ہے
وہ کہتی ہے
تم مجھے بھول کیوں نہیں جاتے
میں کہتا ہوں
بھول کر بھی تمہیں بھول نہیں سکتا
وہ کہتی ہے
تم خود ہی تو کہا کرتے ھو
جاناں !
مَیں تمہاری ہر خواہش پوری کروں گا
خواہ وہ کیسی بھی ہو ۔ ۔

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے



محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا
سنا ہے اس جزیرے پر کبھی دو ہنس رہتے تھے
وہ دونوں ایک دوجے کے دلوں پر راج کرتے تھے
وہ اک دوجے کی آنکھوں میں اتر کر خواب چُنتے تھے
وفا کے تانے بانے ریشمی باتوں سے بُنتے تھے

پھر اس کی روز ہی تجدید بھی کرتے
مگر رُت کے بدلتے ہی ہوا ایسے
وہ دونوں مختلف سمتوں میں چل نکلے
سنا ہے پھر کبھی اک ساتھ دونوں کو نہیں دیکھا

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
تو اس تنہا شجر کے پاس بھی جانا
کہ جس کی ساری شاخوں کے لبادے پر،
ہر اک جانب کسی کا نام لکھا ہے
سنا ہے لکھنے والا، زدگی بھر پھر کبھی کچھ لکھ نہیں پایا
وہ اپنی انگلیوں پر خون کی مہریں لگا بیٹھا
مقدر دار کر بیٹھا۔ ۔ ۔ ۔ وہ خود کو ہار کر، بیٹھا

محبت نام کا جو اک جزیرہ ہے
وہاں جانا پڑے تم کو
ہماری یاد کو بھی ساتھ لے لینا
ہماری یاد تپتی دھوپ میں چھاؤں کی صورت ہے
یہ ماضی کے کسی معصوم سے گاؤں کی صورت ہے

نارسائ

Blood Tears Rose Red Graphic

قدموں میں ایک پیاس ھے

جو بے امان راستوں پر لۓ جاتی ھے
بے سود

بے جہت سفر۔

سناٹوں سے گونجتی رہگذر پر

دھند گہری ھوتی جارھی ھے؛

بہتے ھوۓ پانیوں کی طرح

صدیوں کی تھکان سمیٹے؛

میں آج بھی تیر ی طلب کا عذاب

سہہ رھی ھوں

Sunday 25 May 2014

Mujhey Wo Mehv rakhta hai bas Apnii Tammana men




Sitaa'ray chashm men, seenay men ek Mah'taab ko rakh ker
ZameeN per Wo Mujhey Yuun hum sar-e-Aflaak karta hai

Mujhey Wo Mehv rakhta hai bas Apnii Tammana men
Buhat Sarshaar karta hai , buhat Bay'baak kerta hai

Tammanaoon ki Mittii goondh ker koozay banaata hoon
Meray ander rawaan Woh zindagii ka Chaak karta hai

Kabhii bay'zaar karta hai mujhey duniya ki khwahish sey
Kabhii duniya ki khwahish men mujhey gham naak karta hai

Merii mitti men ek pathar garra hai hijr-e-asswad ka
Khataa'yen jazb ker letaa hai, Mujh ko Paak karta hai

Saturday 24 May 2014

مجھے وہ محو رکھتا ہے بس اپنی تمنا میں



ستارے چشم میں, سینے میں اک ماہتاب کو رکھ کر
زمیں پر وہ مجھے یوں ہمسرِ افلاک کرتا ہے

مجھے وہ محو رکھتا ہے بس اپنی تمنا میں
بہت سرشار کرتا ہے، بہت بے باک کرتا ہے

تمنائوں کی مٹی گوندھ کر کوزے بناتا ہوں
میرے اندر رواں وہ ذندگی کا چاک کرتا ہے

کبھی بیزار کرتا ہے مجھے دنیا کی خواہش سے
کبھی دنیا کی خواہش میں مجھے غمناک کرتا ہے

مری مٹی میں اک پتھر گڑا ہے حجرِ اسود کا
خطائیں جذب کرلیتا ہے، مجھ کو پاک کرتا ہے

کل بہت پھوٹ کے روئی تھی گھٹا

















آج کی شام ہوا ہے نہ گھٹا
آسماں چادرِ تاریک، تہی
کرب کا پھیلتا صحرائے فنا
لوگ کہتے ہیں کہ دو چار گھڑی
چاند نکلا تھا مگر ڈوب گیا

دُور سوکھے ہوئے پیڑوں کے ہجوم
جیسے قبروں پہ صلیبوں کے نشاں
جیسے کاٹے ہوئے ہاتھوں کے علم
صحن زنداں میں ہر اک سمت اترتے سائے
جیسے ناؤ کو نگلتی ہوئی طغیانی نیل
جیسے کعبہ کی طرف بڑھتا ہوا لشکرِ فیل
میں نے کھڑکی کی سلاخوں میں کہیں
چاند سورج کی بنا کر شکلیں
ایک تصویر سجا رکھی ہے
ایک سُولی سی لگا رکھی ہے
رسمِ مقتل ہے یہی
کل بہت پھوٹ کے روئی تھی گھٹا
جیسے اُمید کوئی ٹوٹ گئی

اتنا پانی ہے کہ ہم غرق بھی ہو سکتے ہیں
آؤ کاغذ سے کوئی ناؤ بنا لیتے ہیں

رسمِ زنداں کو نبھانے کے لئے
آج کی شام گنوانے کے

Friday 23 May 2014

ہجر کے ماہتاب سن



ہجرکے ماہتاب سن۔۔

ہم بھی ہیں تیرے ہمسفر

ہم سے بھی کوئ بات کر

ہم تو تیرے رفیق ہیں ہم سے نہ اجتناب کر

دست فراق یار میں

ازلوں کے ہم رکاب سن

ہجر کے مہتاب سن

بخت میں جب نہ چین ہو

وقت سے کیا گلہ کریں

اس سے کہاں گلہ کریں

راہ میںاس کو روک لیں

کیسے یہ حوصلہ کریں

تُو تو ہمارے ساتھ چل

تُو تو ہمارے خواب سن

تاروں میں انتشار ہے

کسی کی نگاہ کے سبب

اپنی ہی چاہ کے سبب

ہم نے جسے گنوادیا



شدت راہ کے سبب

اسی کے غم فراق کا

ہم سے کبھی تو حال سن

ہجر کے ماہتاب سن۔۔۔۔۔۔۔۔

خوشبو کے ہاتھ پاؤں زنجیر ہو گئے تھے













توُ شہر میں نہیں تھا

اور شہرِ جاں کے اندر

،کہرا سا بھر گیا تھا

تنہائی جم گئی تھی

،آنکھوں کی پتلیوں میں

لمحے چٹخ رہے تھے

،ہونٹوں کی پپڑیوں میں

رستے لپٹ گئے تھے

،پیروں کی انگلیوں میں

تو شہر میں نہیں تھا

اور شہر کی ہَوا بھی

میلی سی لگ رہی تھی

خوشبو کے ہاتھ پاؤں

زنجیر ہو گئے تھے

ہم تجھ سے بڑھ کے تیری

تصویر ہوگئے تھے


وہ میرے دل میں رہتا ہے



میں اس کا نام لیتا ہوں
تو ہونٹوں پر تبسم کی
دھنک لہرانے لگتی ہے
میں اس کو یاد کرتا ہوں
تو اک مانوس سی خوشبو
مجھے مہکانے لگتی ہے
وہ میرے دل میں رہتا ہے
گل امید کی صورت
زمانے کی شب تاریک میں
خورشید کی صورت

Monday 19 May 2014

چشمِ نم دیکھ کے ساحِل کو وہ پہچانے ہیں
















یہاں قاتل کو پرکھنے کے بھی پیمانے ہیں
ھم تیرے شہر کے آداب سے بیگانے ہیں

اِک طوفاں بھی ھے موجود کناروں سے پرے
چشمِ نم دیکھ کے ساحِل کو وہ پہچانے ہیں

انکے چہرے پھ شبِ ہجر کی تحریر پڑھو
جن کی آنکھوں میں شبِ وصل کے میخانے ہیں

ہم کہ نامُوسِِ وفا کا لبادہ اُوڑھے
چاک ِدامن سے نہ کھل جاے کہ دیوانے ہیں

یوںتو قاتل ہیں  میّسر کئ بلال لیکن
شہر میں اُسکے ہُنر کے بڑے افسانے ہیں


Monday 12 May 2014

Adhoori Diary


Mujhey Aisa Lutf Ataa Kiya, Jo Na Hijr Tha Na Visaal Tha
Merey Mosamon Kay Mizaaj Daan, Tujhey Mera Kitna Khayal Tha

Kisi Aur Chehrey Ko Dekh Kar, Teri Shakl Zehan Men Aagaie
Tera Naam Lay Kay Mila Usay, Merey Haafzay Ka Yeh Haal Tha

Kabhi Mosamon K Saraab Men, Kabhi Baam-o-Dar K Azaab Men
Wahan Umr Hum Ney Guzaar Di , Jahan Saans Lena Muhaal Tha

Kabhi Tu Ney Ghaur Nahi Kiya, Keh Yeh Log Kese Ujarr Gaey ?
Koi Meer Jesa Garifta Dil, Terey Saamney Ki Misaal Tha

Terey Baad Koi Nahi Mila, Jo yeh Haal Dekh Kay Poochta
Mujhey Kis Ki Aag Jhulsa Gaee? Merey Dil Ko Kis Ka Malaal Tha

Kaheen Khoon-e-Dil Sey Likha Tou Tha, Terey Saal-e-Hijr Ka Aaiena
Woh Adhoori Diary Khoo Gaee, Woh Na Jaaney Konsa Saal Tha

اداسیوں کے عذابوں سے پیار رکھتی ہوں

Image

اداسیوں کے عذابوں سے پیار رکھتی ہوں
نفس نفس میں شبِ انتظار رکھتی ہوں 

یہ دیکھ کتنی منور ہے میری تنہائی
چراغ، بامِ مژہ پر ہزار رکھتی ہوں 

نہ چاند ہے نہ ستارہ نہ کوئی جگنو ہے
نصیب میں کئی شب ہائے تار رکھتی ہوں 

کہاں سے آئے گا نیلے سمندروں کا نشہ
میں اپنی آنکھ میں غم کا خمار رکھتی ہوں 

مثالِ برق چمکتی ہوں بے قراری میں
میں روشنی کی لپک بر قرار رکھتی ہوں 

جلی ہوئی سہی دشتِ فراق میں لیکن
کسی کی یاد سے دل پُر بہار رکھتی ہوں

Saturday 10 May 2014

، وُہ اِتنا دِلکش ہے



اَدائیں حشر جگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
خیال حرف نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بہشتی غنچوں میں گوندھا گیا صراحی بدن
گلاب خوشبو چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

قدم ، اِرم میں دَھرے ، خوش قدم تو حور و غلام
چراغ گھی کے جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

دِہکتا جسم ہے آتش پرستی کی دعوت
بدن سے شمع جلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غزال قسمیں ستاروں کی دے کے عرض کریں
حُضور! چل کے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چمن کو جائے تو دَس لاکھ نرگسی غنچے
زَمیں پہ پلکیں بچھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کڑکتی بجلیاں جب جسم بن کے رَقص کریں
تو مور سر کو ہلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حسین پریاں چلیں ساتھ کر کے ’’سترہ‘‘ سنگھار
اُسے نظر سے بچائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

یہ شوخ تتلیاں ، بارِش میں اُس کو دیکھیں تو
اُکھاڑ پھینکیں قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ پنکھڑی پہ اَگر چلتے چلتے تھک جائے
تو پریاں پیر دَبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ چاند عید کا اُترے جو دِل کے آنگن میں
ہم عید روز منائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

زَمیں پہ خِرمنِ جاں رَکھ کے ہوشمند کہیں
بس آپ بجلی گرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جنہوں نے سائے کا سایہ بھی خواب میں دیکھا
وُہ گھر کبھی نہ بسائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

اُداس غنچوں نے جاں کی اَمان پا کے کہا
یہ لب سے تتلی اُڑائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کمر کو کس کے دوپٹے سے جب چڑھائے پینگ
دِلوں میں زَلزلے آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ آبشار میں بندِ قبا کو کھولے اَگر
تو جھرنے پیاس بجھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

شریر مچھلیاں کافِر کی نقل میں دِن بھر
مچل مچل کے نہائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حلال ہوتی ہے ’’پہلی نظر‘‘ تو حشر تلک
حرام ہو جو ہٹائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو کام سوچ رہے ہیں جناب دِل میں اَبھی
وُہ کام بھول ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

نہا کے جھیل سے نکلے تو رِند پانی میں
مہک شراب سی پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چرا کے عکس ، حنا رَنگ ہاتھ کا قارُون
خزانے ڈُھونڈنے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کُنواری دِیویاں شمعیں جلا کے ہاتھوں پر
حیا کا رَقص دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چنے گلاب تو لگتا ہے پھول مل جل کر
مہکتی فوج بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غزال نقشِ قدم چوم چوم کر پوچھیں
کہاں سے سیکھی اَدائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

سرہانے میر کے ٹُک فاتحہ کو گر وُہ جھکے
تو میر جاگ ہی جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

حسین تتلیاں پھولوں کو طعنے دینے لگیں
کہا تھا ایسی قبائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

اَگر لفافے پہ لکھ دیں ، ’’ملے یہ ملکہ کو‘‘
تو خط اُسی کو تھمائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

عقیق ، لولو و مرجان ، ہیرے ، لعلِ یمن
اُسی میں سب نظر آئیں ، وُہ اتنا دلکش ہے

گلاب ، موتیا ، چنبیلی ، یاسمین ، کنول
اُسے اَدا سے لُبھائیں ، وُہ اتنا دلکش ہے

مگن تھے مینہ کی دُعا میں سبھی کہ وُہ گزرا
بدل دیں سب کی دُعائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے
                     
                        ô 
                         
شراب اور ایسی کہ جو ’’دیکھے‘‘ حشر تک مدہوش
نگاہ رِند جھکائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

نُجومی دیر تلک بے بسی سے دیکھیں ہاتھ
پھر اُس کو ہاتھ دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بدل کے ننھے فرشتے کا بھیس جن بولا
مجھے بھی گود اُٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ہمیں تو اُس کی جھلک مست مور کرتی ہے
شراب اُسی کو پلائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

بہانے جھاڑُو کے پلکوں سے چار سو پریاں
قدم کی خاک چرائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ چُومے خشک لبوں سے جو شبنمِ گُل کو
تو پھول پیاس بجھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

کبھی کبھی ہمیں لگتا ہے بھیگے لب اُس کے
ہَوا میں شہد ملائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

مکین چاند کے بیعت کو جب بلاتے ہیں
دَھنک کی پالکی لائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جفا پہ اُس کی فدا کر دُوں سوچے سمجھے بغیر
ہزاروں ، لاکھوں وَفائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

سفید جسم جو لرزے ذِرا سا بارِش میں
تو اَبر کانپ سے جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

جو اُس کو چومنا چاہیں ، اَگر وُہ چومنے دے
تو چوم پھر بھی نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ستارے توڑ کے لانے کی کیا ضرورت ہے
ستارے دوڑ کے آئیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

چمن میں اُس نے جہاں دونوں بازُو کھولے تھے
وَہاں کلیسا بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

ہم اُس کے چہرے سے نظریں ہٹا نہیں سکتے
گلے سے کیسے لگائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

وُہ جتنا جسم تھا ، اُتنا غزل میں ڈھال لیا
طلسم کیسے دِکھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

غلام بھیجتا ، سر آنکھوں پر بٹھا لیتے
اُسے کہاں پہ بٹھائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

تمام آئینے حیرت میں غرق سوچتے ہیں
اُسے یہ کیسے بتائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

زَبان وَصف سے عاجز ، حُروف مفلس تر
قلم گھسیٹ نہ پائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

طلسمِ حُسن ہے موجود لفظوں سے اَفضل
لغت جدید بنائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

قسم ہے قیس تجھے توڑ دے یہیں پہ قلم
رَفیق مر ہی نہ جائیں ، وُہ اِتنا دِلکش ہے

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets