Thursday 28 February 2013

تجھ کو ملنا تھا مختصر مدت کے واسطے


تو ملا ھے یا خواب ھے کوئی
تو ھی بتا جاناں ، یہ سراب کیوں ھے


تازہ ھوا کا جھونکا ھے گر تو پھر
دل کو کسی حبس کا احساس کیوں ھے


تیری خوشبو پھیلی ھے چہار سو مگر
لہو لہو دل کا ھر گلاب کیوں ھے


ستارے ھیں تیرا چہرا عکس در عکس
پھر دھندلایا ھوا سا مہتاب کیوں ھے


تجھ کو ملنا تھا مختصر مدت کے واسطے
دل نے رکھا اتنے سالوں کا حساب کیوں ھے


ملے بغیر بچھڑنا لکھا تھا مقدر میں راسخ
تم بتلاؤ ھمیں یوں ملنے کا عزاب کیوں ھے


اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے




تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئ وہ سعئِ کرم فرما بھی گئے
اس سعئِ کرم کا کیا کہیئے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

اک عرضِ وفا کربھی  نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یہاں ھم نے زباں بھی نہ کھولی، وھاں آنکھ جھکی، شرما بھی گئے

آشفتگئِ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ، ھم رازِ تبسم پا بھی گئے

روئدادِ غمِ الفت ان سے ھم کہتے، کیونکر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

اربابِ جنوں پہ فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گزرا
 آئے تھے سواد ِالفت میں، کچھ کھو بھی گئے، کچھ پا بھی گئے

یہ رنگِ بہارِ عالم ھے، کیا فکر تجھ کو اے ساقی
محفل تو تیری سونی نہ ہوئ، کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اس محفلِ کیف و مستی میں، اس انجمنِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے رہے، ھم پی بھی گئے، چھلکا بھی گئے

دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے


کوئي زنجير
آہن کي چاندي کي روايت کي
محبت توڑ سکتي ہے
يہ ايسي ڈھال ہے جس پر
زمانے کي کسي تلوار کا لوہا نہيں چلتا
يہ ايسا شہر ہے جس
ميں کسي آمر کسي سلطان کا سکہ نہيں چلتا
اگر چشم تماشا ميں ذرا سي بھي ملاوٹ ہو
يہ آئينہ نہيں چلتا
يہ ايسي آگ ہے جس ميں
بدن شعلون ميں جلتے ہيں تو روہيں مسکراتي ہيں
يہ وہ سيلاب ہے جس کو
دلوں کي بستياں آواز دے کر خود بلاتي ہيں
يہ جب چاہے کسي بھي خواب کو تعبير مل جائے
جو منظر بجھ چکے ہيں انکو بھي تنوير مل جائے
دعا جو بے ٹھکانہ تھي اسے تاثير مل جائے
کسي رستے ميں رستہ پوچھتي تقدير مل جائے
محبت روک سکتي ہے سمے کے تيز دھارے کو
کسي جلتے شرارے کو، فنا کے استعارے کو
محبت روک سکتي ہے کسي گرتے ستارے کو
يہ چکنا چور آئينے کے ريزے جوڑ سکتي ہے
جدھر چاھے يہ باگيں موسموں کي موڑسکتي ہے
کوئي زنجير ہو اس کو محبت توڑ سکتي ہے


لُٹ چکے شہر آشنائی کے



بھول جائیں تو آج بہتر ہے
سِلسلے قرب کے جدائی کے
بُجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں
لُٹ چکے شہر آشنائی کے

رائیگاں ساعتوں سے کیا لینا
زخم ہوں پھول ہوں ستارے ہوں
موسموں کا حساب کیا رکھنا
جس نے جیسے بھی دن گذارے ہوں

زندگی سے شکایتیں کیسی
اب نہیں ہیں اگر گِلے تھے کبھی
بُھول جائیں کہ جو ہُوا سو ہُوا
بُھول جائیں کہ ہم ملے تھے کبھی

اکثر اوقات چاہنے پر بھی
فاصلوں میں کمی نہیں ہوتی
بعض اوقات جانے والوں کی
واپسی سے خوشی نہیں ہوتی

تمہارے بعد کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں باقی



!کہا تھا ناں
مجھے تم اس طرح سوتے ہوئے مت چھوڑ کے جانا
مجھے بے شک جگا دینا
بتا دینا
محبت کے سفر میں ساتھ میرے چل نہیں‌ سکتیں
جدائی میں ہجر میں ساتھ میرے جل نہیں سکتیں
تمھیں‌ رستہ بدلنا ہے
مری حد سے نکلنا ہے
 
تمہیں کس بات کا ڈر تھا
 تمہیں جانے نہیں دیتا
کہیں پہ قید کر لیتا
!ارے پگلی
محبت کی طبیعت میں زبردستی نہیں ہوتی
جسے رستہ بدلنا ہو
اسے رستہ بدلنے سے
جسے حد سے نکلنا ہو
اسے حد سے نکلنے سے
نہ کوئی روک پایا ہے
نہ کوئی روک پائے گا
تمھیں کس بات کا ڈر تھا
مجھے بے شک جگا دیتے
میں تم کو دیکھ ہی لیتا
تمھیں کوئی دعا دیتا
کم از کم یہ تو نہ ہوتا
مرے ساتھی حقیقت ہے
 
تمہارے بعد کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں باقی

مگر کھونے سے ڈرتا ہوں
میں اب سونے سے ڈرتا ہوں


Wednesday 27 February 2013

اس شخص کے ھاتھوں پہ میرا نام لکھا ھے


گلشن کی بہاروں پہ سر شام لکھا ھے
پھر اس نے گلابوں سے میرا نام لکھا ہے

بہتے ہوئے پانی میں یہ لفظوں کے ستارے
شاید میرے محبوب نے پیغام لکھا ھے

یہ دردِ مسلسل میری دنیا میں رہے گا
کچھ سوچ کے اس نے میرا انجام لکھا ہے

جس نے میری جانب کبھی مڑ کر نہیں دیکھا
اس شخص کے ھاتھوں پہ میرا نام لکھا ھے

نیندوں نے کہا خواب سے یہ ھاتھ ملا کر
کیا اپنے مقدر میں بھی آرام لکھا ھے

تسنیم کی ہر رات گزرنی ہےسفر میں
آنکھوں کے جزیرے پہ یہ پیغام لکھا ھے


Meray larakpan ki yaadon ki chokhat par,koi larki

momomughal

meray larakpan ki yaadon ki chokhat par,koi larki
ab tak bethi hai,,aanchal men,jugnu aur gulab bharay


میرے لڑکپن کی یادوں کی چوکھٹ پر، کوئ لڑکی
اب تک بیٹھی ہے، آنچل میں، جُگنو اور گُلاب بھرے

Dair lagi aaney men tum ko shukar hai phir bhi aaye to


Dair lagi aaney men tum ko shukar hai phir bhi aaye to
aas ney dil kaa saath na choraa waisey ham ghabraye to


Shafaq,dhanak,mahtaab,ghataayen, taarey, naghmey, bijalii, phuul
us daaman mei kaya kaya kuch hai wo daaman haath men aaye to


Chaahat k badley men ham to baich dein apni marzi tak
koi miley to dil ka gaahak koi hamein apnaaye to


kyun yeh mehr'angez tabassum mad-e-nazar jab kuch bhi nahin
haaye koi anjaan agar is dhokey men aa jaaye to

Suni sunaai baat nahin hai apney oopar beeti hai
phuul nikaltey hain sholon sey chaahat aag lagaaye to


Jhuut hai sab taareekh hamesha apney ko dohrati hai
acha hai mera khvaab javaani thora sa dohraye to


Naadaani aur majburi men yaaro kuch to farq karo
ek be'bas insaan karey kaya tuut k dil aa jaaye to 





دیر لگی آنے میں تُم کو، شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا، ویسے ہم گھبرائے تو

شفق، دھنک، مہتاب، گھٹائیں، تارے، نغمے، بجلی ، پُھول
اُس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، ہاتھ وہ دامن آئے تو

چاہت کے بدلے میں ہم تو، بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئ ملے تو دل کا گاہک، کوئ ہمیں اپنائے تو

کیوں یہ مہر انگیز تبسّم، مدّ ِ نظر، جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئ انجان اگر، اس دھوکے میں آ جائے تو

سُنی سُنائ بات نہیں ہے، اپنے اُوپر بیتی ہے
پُھول نکلتے ہیں شعلوں سے، چاہت آگ لگائے تو

جھوٹ ہے سب، تاریخ ہمیشہ، اپنے کو دُھراتی ہے
اچھّا، میرا خوابِ جوانی، تھوڑا سا دُھرائے تو

نادانی اور مجُبوری میں، یارو، کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا، ٹُوٹ کے دل آ جائے تو

\

سوائے اس کے اُن سے وقت رخصت اورکیا کہتے



چلو ظلمت کا یہ اندھا سفر آسان کر جائیں 
کسی کے کام آئیں اپنی آنکھیں دان کر جائیں

صحرا زندگی کا ھے یہاں سائے نہیں ملتے
بلا کی دھوپ ھے یادوں کی چھتری تان کر جائیں

مجھے جو جانتے ھیں ان کی حیرت اور بڑھ جائے 
نہیں جو جانتے ان کو بھی ھم حیران کر جائیں

بہت دن رہ لیے اس جسم میں اب یہ ارادہ ھے 
یہ گھر خالی کریں اس شہر کو ویران کر جائیں

ھم ایسے لوگ ھیں اپنی جدائی کے سمندر میں 
ھر اک ساحل کو لے ڈوبیں نگر ویران کر جائیں


سوائے اس کے اُن سے وقت رخصت اورکیا کہتے
ہمارے خواب لوٹا دیں یہی احسان کر جائیں

تو نے یونہی گنوا دیئے موسم


تو نے وِش کارڈ بھیج کر مجھ کو
یاد کتنے دلا دیئے موسم

میرے باہر بھی بدل دیا منظر
میرے اندر سجا دیئے موسم

فرق باقی نہیں رکھا تو نے
موسموں میں ملا دیئے موسم

سوچتا ہوں کہ اپنی فرقت میں
تونے کیسے بنا دیئے موسم

بچّوں جیسی تھی تیری ضد جاناں
تو نے یونہی گنوا دیئے موسم

موم بتّی نہ تھی کہ پل بھر میں
پھونک ماری بجھا دیئے موسم۔


میںچھوٹی سی اک لڑکی بہت ہی بڑی ہوں


میںچھوٹی سی اک لڑکی بہت ہی بڑی ہوں 
کہ ہر جنگ اپنی اکیلی لڑی ہوں

بدن کی چٹانوں پہ کائی جمی ہے 
کہ صدیوں سے ساحل پہ تنہا کھڑی ہوں 

ہوا کے ورق پہ لکھی اک غزل تھی
خزاں آئی تو شاخ سے گر پڑی ہوں

ملی ہیں مجھے لحظ لحظ کی خبریں
کسی کی کلائی کی شاید گھڑی ہوں 

ہے لبریز دل انتظاروں سے میرا
میں کتبے کی صورت میں گلی میں گڑی ہوں

خلا سے مجھے آرہی ہیں صدائیں
مگر میں تو پچھلی صدی میں جڑی ہوں 

میں اک گوشہ عافیت سے نکل کر
وہ پگلی ہوں دنیا سے پھر لڑ پڑی ہوں

وہ کرتا ہے نیناں میں بسنے کی باتیں
مگر میں تو اپنی ہی ضد میں پڑی ہوں ۔ 


Tuesday 26 February 2013

مری آنکھوں میں اپنے خواب لکھ جاؤ


جو تم سے بن پڑے جاناں
تو میرے سرد ہاتھوں کو ذرا چھو کر
حرارت پیار کی بھردو
مری آنکھوں کے پیالوں میں
عبارت پیار کی بھردو
مرے ہونٹوں کے گوشوں میں
شرارت پیار کی بھر دو
کتاب دل پہ آکر وصل کا اک باب لکھ جاؤ
مری آنکھوں میں اپنے خواب لکھ جاؤ

ہوش بھلا بيٹھي میں تجھ بن ڈھول بلوچا

sassi-punnu
ہوش بھلا بيٹھي میں
تجھ بن ڈھول بلوچا

تيرا حال ہوا کيا
کچھ تو بول بلوچا

ظلم کيا بابل نے
جان لگي ہے رلنے

اب کيسے جيناہے
بھيد يہ کھول بلوچا

قہر يہ مجھ پر ٹوٹا
تيرا ساتھ بھي چھوٹا

ديکھ ليا جگ سارا
تو انمول بلوچا


Dil pey Aayi hai Aik Kharaash Mujhey


Sheesha-e-Ishq sey Taraash Mujhey
Aur Phir kar dey Paash Paash Mujhey


Ja rahi huun mein Roshni ki taraf
Apney Saa'ye ki hai Tallash Mujhey


Ab k Zakhmi nahi hui lekin,
Dil pey Aayi hai Aik Kharaash Mujhey


Kho Diya khud ko Justujoo men TERI
TU ney karna hai ab Talaash Mujhey

ریزہ ریزہ ہے مری جان طلب میں جس کی



وار بھرپور کیا اُس نے اَنا پر میری
خود بھی مغموم ہوا آہ و بُکا پر میری

وقتِ آخر بھی تری خیر خُدا سے مانگی
زندگی ختم ہوئی حرفِ دُعا پر میری

سچ بتا عشق مجھے سخت پریشاں میں ہوں
کیوں خفا ہوتا نہیں دوست خطا پر میری

ریزہ ریزہ ہے مری جان طلب میں جس کی
اس کو تشکیک ہے افسوسِ وفا پر میری

اُس کے ہاتھوں کی نفاست پہ گراں تھی مہندی
آ گئی یاد اسے رسمِ حنا پر میری

رنگِ غالب ہی سہی، رنجِ محبت ہی سہی
خوش نظر آتے ہیں نقاد نوا پر میری

اس کا اخلاص مسلّم ہے خُدا خیر کرے
دوست پہنچا نہیں تنویر صدا پر میری

زمانے کو بتانے سے ذرا پہلے بتا دینا



بھروسہ ٹُوٹ جانے سے ذرا پہلے بتا دینا

مجھے تم آزمانے سے ذرا پہلے بتا دینا

کسی حیلے بہانے سے ذرا پہلے بتا دینا

کہ مجھ کو تم بُھلانے سے ذرا پہلے بتا دینا

ذہن کی ریت پر تم نے محبت سے جو لکھی تھی

وہ تحریریں مِٹانے سے ذرا پہلے بتا دینا

میرے دلبر، کہ اس دل پر میں رکھ لوں ضبط کا پتھر

سن، دامن چُھڑانے سے ذرا پہلے بتا دینا

کسی بھی موڑ پہ ہمدم! بُرا پاؤ اگر مجھ کو

زمانے کو بتانے سے ذرا پہلے بتا دینا


اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا



اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا
جانے آج کیوں تیرے نام پہ رونا آیا

یوں تو ہر شام اُمیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا

کبھی تقدیر کا ماتم، کبھی دُنیا کا گِلہ
منزلِ عشق میں ہر کام پہ رونا آیا

جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا ساغر
مجھے اپنے دلِ ناکام پہ رونا آیا

تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا



تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں تنہا تھا مگر اتنا نہیں تھا

تیری تصویر سے کرتا تھا باتیں
میرے کمرے میں آئینہ نہیں تھا

سمندر نے مجھے پیاسا ہی رکھا
میں جب صحرا میں تھا پیاسا نہیں تھا

منانے ، روٹھنے کے کھیل میں ہم
بچھڑ جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا

سنا ہے بند کر لیں اس نے آنکھیں
کئی راتوں سے وہ سویا نہیں تھا

Aik nazar he kaafi hai


wasl aur hijr izafi hai
aik nazar he kaafi hai
duniya sari gham he gham hai
tera naam he talafi hai


وصل اور ہجر اضافی ہے
ایک نظر ہی کافی ہے
دنیا ساری غم ہی غم ہے
تیرا نام تلافی ہے

شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌یاد رکھنا


شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌یاد رکھنا
میں‌ آخری جنگ لڑ رہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

ہوائیں پیغام دے گئی ہیں‌کہ مجھے دریا بلا رہا ہے 
میں‌ بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

نہ جانے کوفے کی کیا خبر ہو نہ جانے کس دشت میں بسر ہو
میں پھر مدینے سے جارہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

مجھے عزیزان من! محبت کا کوئی بھی تجربہ نہیں ہے 
میں اس سفر میں‌ نیا نیا ہوں ، مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتا سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا


اب کے برس بھی نینوں میں رتجگے بسے رہے


اب کے برس بھی نینوں میں رتجگے بسے رہے
اب کے برس بھی اندھیروں میں سحر ڈھونڈتے رہے
اب کے برس بھی فضا تعصب سے پُر تھی
اب کے برس بھی خنجر آستینوں میں چھپے رہے
اب کے برس بھی بھروسہ ہم دوستوں پر کرتے رہے
اب کے برس بھی ترے آنے کی ہم کو آس تھی
اب کے برس بھی انتظار میں جلتے رہے
اب کے برس بھی سندیسے ہوا لاتی رہی
اب کے برس بھی نرگس کے پھول کمرہ بھرتے رہے۔

موسمِ عشق تیری بارش میں


جانے کیسے سنبھال کر رکھے
سب ارادے سنبھال کر رکھے
کچھ نئے رنگ ہیں محبت کے
کچھ پرانے سنبھال کر رکھے
موسمِ عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے
جن کی خوشبو اداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے
تجھ سے ملنے کے اور بچھڑنے کے
سارے خدشے سنبھال کر رکھے
جب ہوا کا مزاج برہم تھا
ہم نے پتّے سنبھال کر رکھے
آرزو کے حسین پنجرے میں
کچھ پرندے سنبھال کر رکھے
ہم نے دل کی کتاب میں تیرے
سارے وعدے سنبھال کر رکھے
تیرے دکھ کے تمام ہی موسم
اے زمانے سنبھال کر رکھے
میرے خوابوں کو راکھ کر ڈالا
اور اپنے سنبھال کر رکھے


تمھارا نام کچھ ايسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے


تمھارا نام کچھ ايسے مرے ہونٹوں پہ کھلتا ہے
اندھيری رات ميں جيسے
اچانک چاند بادلوں کے کسی کونے سے باہر جھانکتا ہے
اور سارے منظروں ميں روشنی سی پھيل جاتی ہے
کلی جيسے لرزتی اوس کے قطرے پہن کر مسکراتی ہے
بدلتي رت کسی مانوس سی آہٹ کی ڈالی لے کے چلتی ہے
تو خوشبو کے دھاگے سے مرا ہر چاک سلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مری سانسوں ميں کھلتا ہے
تمہيں کسی الجھی ہوئی گمنام سی چنتا کے جادو ميں
کس سوچے ہوئے بے نام سے لمحے کی خوشبو ميں
کسی موسم کے دامن ميں کسی خواہش کے پہلو ميں
تو اس خوش رنگ منظر ميں تمہاری ياد کا رستہ
نجانے کس طرف سے پھوٹتا ہے
اور پھر ايسے مری ہر راہ کے ہم راہ چلتا ہے
کہ آنکھوں ميں ستاروں کي گزرگاہ ہيں سی بنتی ہيں
دھنک کی کہکشائيں سی
تمہارے نام کے ان خوشنما حرفوں ميں ڈھلتی ہيں
کہ جن کے لمس سے ہونٹوں پہ جگنو رقص کرتے ہيں
تمہارے خواب کا رشتہ مرے نيندوں سے ملتا ہے
تو دل آباد ہوتا ہے
مرا ہر اک چاک سلتا ہے
تمہارے نام کا تارا مری راتوں ميں کھلتا ہے


Jaan leva hai, la'hasil ki tamanna karna



zindagi thak kay girti hai to khayaal aata hai
jaan leva hai, la'hasil ki tamanna karna



زندگی تھک کے گرتی ہے تو خیال آتا ہے




جان لیوا ہے ، لا حاصل کی تمنا کرنا

Us kay honton kay phool chun laina


us kay honton kay phool chun laina
aur un ko basa kay aankhon men
kuch adhooray say khawab chun laina

اس کے ہونٹوں کے پھول چن لينا
اور ان کو بسا کے آنکھوں ميں
کچھ ادھورے سے خواب بن لينا

مقدّر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ


بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہمارا دل کسی کی جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

اندھیری رات کی خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لو بھی مدّھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہارے روٹھ جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدّر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہوا اور پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ


Dil-e-muztarib hua hai teri yaad sey gurezaan


Yeh wafa bhi kaya khata hai mujhey sochna parray ga
Ussey mujh sey kyun gila hai mujhey sochna parray ga

Dil-e-muztarib hua hai teri yaad sey gurezaan
Yeh maqaam kaun sa hai mujhey sochna parray ga

Woh miley to be'qarari hai na miley to be'qarari hai
Merey dil ko kaya hua hai mujhey sochna parray ga

Dar-e-dil pey di hai dastak sahb-e-intezaar kis ney
Koi aashna sada hai mujhey sochna parray ga..!

Monday 25 February 2013

ہجر کی کالی آندھی میں


دل کے سونے آنگن میں
خواہش کا پیڑ لگایا تھا
وہ پیڑ تمہارا میرا تھا
پر ہجر کے لمبے پت جھڑ میں
اُس پیڑ کے جتنے پتّے تھے
اُس پیڑ پہ جتنی شاخیں تھیں
وہ ساری شاخیں ٹوٹ گئیں
وہ سارے پتّے سوکھ گئے
بس ایک ہی ٹہنی باقی ہے
یہ ٹہنی یاد کی ٹہنی ہے
اور ایک ہی پتّہ زندہ ہے
یہ پتّہ آس کا پتّہ ہے
یہ آس کا پتّہ جانے کیوں
اِک آس لگائے بیٹھا ہے
کہ وصل کا ساون آئے گا
تو جتنے پتّے ٹوٹے ہیں
وہ سارے پھر سے نکلیں گے
اور دل کے سونے آنگن میں
پھر سے ہریالی آئے گی
پر وقت کا موسم کہتا ہے
کہ ہجر کی کالی آندھی میں
اِس پیڑ کا بچنا مشکل ہے
اب دل کے سونے آنگن کو
آباد نہیں تم کرسکتے
پر آس کا پتّہ کہتا ہے 
کہ دل کا سونا آنگن بھی
اِس پیڑ کے دم سے روشن ہے
یہ پیڑ ہی گر کٹ جائے گا
تو آنگن میں کیا رکھا ہے
دل کے سونے آنگن میں
اِک پیڑ لگا ہے خواہش کا
اُس پیڑ پہ یاد کی ٹہنی پر
ایک آس کا پتّہ زندہ ہے
نہ سوکھا ہے نہ سہما ہے۔


Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets