ہم نے تو خیر تجھ سے شکایت کبھی نہ کی
ایسا نہیں کہ دل نے بغاوت کبھی نہ کی
کس حال میں ہیں تیرے ستائے ہوئے غریب
تو نے یہ پوچھنے کی زحمت کبھی نہ کی
محسوس کیا کرے گا وہ اوروں کے درد کو
جس نے خود اپنے آپ سے الفت کبھی نہ کی
چاہا ہے میں نے جس کو بڑی شدتوں کے ساتھ
اس طرح سے اس نے مجھ سے محبت کبھی نہ کی
ہر داستان تیری بہت غور سے سنی
لیکن بیان اپنی حکایت کبھی نہ کی
اک خواب تھا کہ اپنی شبوں پر رہا محیط
کیا خواب تھا کسی سے وضاحت کبھی نہ کی
اک آگ تھی کہ جلتے رہے جس میں عمر بھر
اک درد تھا کہ جس میں خیانت کبھی نہ کی
No comments:
Post a Comment