جانے کیسے سنبھال کر رکھے
سب ارادے سنبھال کر رکھے
کچھ نئے رنگ ہیں محبت کے
کچھ پرانے سنبھال کر رکھے
کچھ پرانے سنبھال کر رکھے
موسمِ عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے
خط جو بھیگے سنبھال کر رکھے
جن کی خوشبو اداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھے
تجھ سے ملنے کے اور بچھڑنے کے
سارے خدشے سنبھال کر رکھے
سارے خدشے سنبھال کر رکھے
جب ہوا کا مزاج برہم تھا
ہم نے پتّے سنبھال کر رکھے
ہم نے پتّے سنبھال کر رکھے
آرزو کے حسین پنجرے میں
کچھ پرندے سنبھال کر رکھے
کچھ پرندے سنبھال کر رکھے
ہم نے دل کی کتاب میں تیرے
سارے وعدے سنبھال کر رکھے
سارے وعدے سنبھال کر رکھے
تیرے دکھ کے تمام ہی موسم
اے زمانے سنبھال کر رکھے
اے زمانے سنبھال کر رکھے
میرے خوابوں کو راکھ کر ڈالا
اور اپنے سنبھال کر رکھے
اور اپنے سنبھال کر رکھے
No comments:
Post a Comment