Wednesday, 26 June 2013

اب بھی اس کے خط آتے ہیں


اب بھی اس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
موسم، خوشبو ،گھر والوں کی باتیں کر کے، اپنے دل کا حال
سبھائو سے لکھتی ہے
اب بھی اُس کے سب لفظوں سے کچے جذبے پھوٹ آتے ہیں
اب بھی اُس کے خط میں موسم گیت سنانے لگ جاتے ہیں
اب بھی دُھوپ نکل آتی ہے بادل چھا نے لگ جاتے ہیں
اب بھی اُس کے جسم کی خوشبو ہاتھوں سے ہو کر لفظوں تک
اور پھر مجھ تک آجاتی ہے

اب بھی اس کے خط میں اکثر چاند اُبھرنے لگ جاتا ہے
شام اُترے تو ان لفظوں میں سورج ڈوبنے لگ جاتا ہے

اب بھی اُس کے خط پڑھ کر کچھ مجھ میں ٹوٹنے لگ جاتا ہے
اب بھی خط کے اِک کونے میں وہ اِک دِیپ جلا دیتی ہے
اب بھی میرے نام پہ اپنے اُجلے ہونٹ بنا دیتی ہے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں
بھیگے بھیگے اور بھینے جادو میں لپٹے
اب بھی اُس کے خط آتے ہیں…

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets