وھی ھے درد کا عالم اُسے بُھلا کر بھی
مِرے قریب ھی نکلا وہ دُور جا کر بھی
پئیے ھیں سات سمندر مگر وھی ھے پیاس
نگاہ بھرتی نہیں ھے کِسی کو پا کر بھی
الگ الگ سہی دُنیا کا اور دوست کا غم
کبھی یوُنہی ذرا دیکھو انہیں مِلا کر بھی
عجیب قحط پڑا اب کے سال اشکوں کا
کہ آنکھ تر نہ ھوُئی خوُن میں نہا کر بھی
ھر ایک شے تِری رحمت کے گیت گاتی ھے
اگر ھے سچ تو کبھی اے مِرے خدا، کر بھی
فنا کا عکس ھے شبنم میں، گُل کا عکس نہیں
نگاہ کر کبھی اس آئنے میں آ کر بھی
زمیں کا سانس رُکا ھے تِرے اشارے پر
کبھی تو دیکھ اِدھر اِک نظر اُٹھا کر بھی
بگوُلے رقص کو اُٹھے ھوا نے تالی دی
سکوُن مل نہ سکا بستیوں سے جا کر بھی
ھر ایک قید کی کوئی اَخیر ھے امجد
نفس کو خاک کے جادُو سے اب رہا کر بھی
No comments:
Post a Comment