اب تک تو نورونکہت و رنگ و صدا کہوں
میں تجھ کو چھو سکوں تو خدا جانے کیا کہوں
لفظوں سے انکو پیار ہے ؛ مفہوم سے مجھے
وہ گل کہیں جسے ؛ میں تیرا نقش پا کہوں
اب جستجو ہے تیرے جفا کے جواز کی
جی چاہتا ہے تجھے وفا آشنا کہوں
صرف اسکے لئے کہ عشق اسی کا ظہور ہے
میں تیرے حسن کو بھی ثبوت-ے-وفا کہوں
تو چل دیا تو کتنے حقائق بدل گئے
نجم-ے-سحر کو مرقد-ے-شب کا دیا کہوں
کیا جبر ہے کہ بت کو بھی کہنا پڑے خدا
وہ ہے خدا تو ؛ میرے خدا تجھکو کیا کہوں
جب میرے منہ میں میری زبان ہے تو کیوں نہ میں
جو کچھ کہوں ؛ یقین سے کہوں ؛ برملا کہوں
کیا جانے کس سفر پے روانہ ہوں ازل سے میں
ہر انتہا کو ایک نئى ابتدا کہوں
ہو کیوں نہ مجھکو اپنے مزاق-ے-سخن پے ناز
غالب کو کائنات سخن کا خدا کہوں
No comments:
Post a Comment