ٹھہری ٹھہری ہوئی طبیعت میں روانی آئی
آج پھر یاد محبت کی کہانی آئی
آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا
آج پھر یاد کوئی چوٹ پرانی آئی
مدّتوں بعد چلا اُن پہ ہمارا جادو
مدّتوں بعد ہمیں بات بنانی آئی
مدّتوں بعد پشیماں ہوا دریا ہم سے
مدّتوں بعد ہمیں پیاس چُھپانی آئی
مدّتوں بعد کھُلی وسعتِ صحرا ہم پر
مدّتوں بعد ہمیں خاک اُڑانی آئی
مدّتوں بعد میسر ہوا ماں کا آنچل
مدّتوں بعد ہمیں نیند سُہانی آئی
اتنی آسانی سے ملتی نہیں فن کی دولت
ڈھل گئی عمر تو غزلوں پہ جوانی آئی
اقبال اشعر
No comments:
Post a Comment