اداسی میں کوئی پنچھی
تمہیں لوری سنائے گا
کوئی پتہ شجر سے ٹوٹ کے
خود کو مٹائے گا
ہر اک بارش کا قطرہدسمبر آگیا ہے یارو۔۔۔!
داستاں اپنی سنائے گا
تو ان لمحات میں
وہ درد پھر سے جاگ جائے گا
کوئی بچھڑا ہوا ساتھی
پھر سے یاد آئے گا
تو اک گمنام سی منزل
تو اک گمنام سا رستہ
تمہیں پھر سے رلائے گا
تو ان کمزور لمحوں میں
کوئی بے چین سا آنسو
تیری پلکوں کے سائے پر
آکے رک سا جائے گا
تو پھر سر کو جھکا کر تم
اس آنسو کو بہا دینا
دسمبر لوٹ جائے گا۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment