گھر کا رستہ بھی ملا تھا شاید
راہ میں سنگِ وفا تھا شاید
اِک ہتھیلی پہ دیا ہے اب تک
ایک سورج نہ بجھا تھا شاید
اس قدر تیز ہوا کے جھونکے
شاخ پر پھول کِھلا تھا شاید
لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے
وہم سا دل کو ہُوا تھا شاید
خونِ دل میں تو ڈبویا تھا قلم
اور پھر کچھ نہ لکھا تھا شاید
تجھ کو بُھولے تو دعا تک بُھولے
اور وہی وقتِ دعا تھا شاید
موجہ ٴ رنگ بیاباں سے چلا
یا کوئی آبلہ پا تھا شاید
رُت کا ہر آن بدلتا لہجہ
ہم سے کچھ پوچھ رہا تھا شاید
کیوں ادا ؔ کوئی گریزاں لمحہ
شعر سننے کو رُکا تھا شاید
No comments:
Post a Comment