ستارے چشم میں, سینے میں اک ماہتاب کو رکھ کر
زمیں پر وہ مجھے یوں ہمسرِ افلاک کرتا ہے
مجھے وہ محو رکھتا ہے بس اپنی تمنا میں
بہت سرشار کرتا ہے، بہت بے باک کرتا ہے
تمنائوں کی مٹی گوندھ کر کوزے بناتا ہوں
میرے اندر رواں وہ ذندگی کا چاک کرتا ہے
کبھی بیزار کرتا ہے مجھے دنیا کی خواہش سے
کبھی دنیا کی خواہش میں مجھے غمناک کرتا ہے
مری مٹی میں اک پتھر گڑا ہے حجرِ اسود کا
خطائیں جذب کرلیتا ہے، مجھ کو پاک کرتا ہے
No comments:
Post a Comment