Thursday 25 October 2012

ہم کیا کرتے کس راہ چلتے


ہم کیا کرتے کس راہ چلتے
ہر راہ میں کانٹے بکھرے تھے
ان رشتوں کو جو چھوٹ گئے
ان صدیوں کے یارانوں کے
جو اک اک کر کے ٹوٹ گئے

جس راہ چلے جس سمت گئے
یوں پاؤں لہولہان ہوئے
سب دیکھنے والے کہتے تھے
یہ کیسی ریت رچائی ہے
یہ مہندی کیوں لگوائی ہے
وہ کہتے تھے، کیوں قحطِ وفا
کا ناحق چرچا کرتے ہو
پاؤں سے لہو کو دھوڈالو

یہ راتیں جب کٹ جائیں گی
سو رستے ان سے پھوٹیں گے
تم دل کو سنبھالو جس میں ابھی
سو طرح کے نشتر ٹوٹیں گے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets