Thursday 18 October 2012

مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے


کہیں بے کنار سے رتجگے‘ کہیں زر نگار سے خواب دے
ترا کیا اُصول ہے زندگی؟ مجھے کون اس کا جواب دے

جو بچھا سکوں ترے واسطے‘ جو سجا سکیں ترے راستے 
مری دسترس میں ستارے رکھ‘ مری مُٹھیوں کو گلاب دے

یہ جو خواہشوں کا پرند ہے‘ اسے موسموں سے غرض نہیں 
یہ اُڑے گا اپنی ہی موج میں‘ اِسے آب دے کہ سراب دے

تجھے ُچھو لیا تو بھڑک اُٹھے مرے جسم و جاں میں چراغ سے 
اِسی آگ میں مجھے راکھ کر‘ اسی شعلگی کو شباب دے

کبھی یوں بھی ہو ترے رُوبرو‘ میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں 
”مری حسرتوں کو شمار کر‘ مری خواہشوں کا حساب دے“

تری اِک نگاہ کے فیض سے مری کشتِ حرف چمک اُٹھے 
مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں مجھے ایک ایسی کتاب دے


No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets