حُسن کے ناز ، شب اٹھائے بہت
کھٹا ، میٹھا وہ مسکرائے بہت

ساری دُنیا سے مشورہ نہ لو
عقل والو! ہے دِل کی رائے بہت

آپ شب واقعی اکیلے تھے؟
مجھ کو کیوں رات یاد آئے بہت

صرف ’’چنگاریاں‘‘ ہی پیدا ہوئیں
گیت ، پتھر نے گنگنائے بہت

کانٹوں کی دوستی بھی گھاٹا ہے
پھول نے خود بھی ، زخم کھائے بہت

ہر دفعہ ہی اُداسی جیت گئی
تازہ پھولوں کو گھر میں لائے بہت

غالباً آنکھ کی خرابی ہے
آدمی خال خال ، سائے بہت

چڑھتے سورج کے کچھ پجاری دوست
آج کرتے ہیں ہائے ہائے بہت

عشق نہ ہونا تھا اُسے ، نہ ہُوا
شعر ، ہر رنگ کے سنائے بہت

بے وفا کا ’’اُدھار‘‘ نہ رکھا
قیس! ہم نے حسیں رُلائے بہت