ہوا کے ساتھ درختوں کے رابطے تھے بہت
تھا عکسِ ذات فقط ایک‘ آئینے تھے بہت

تمہارے بعد تو سنسان ہو گیا ہے شہر
عجیب دن تھے وہ‘ تم تھے تو رتجگے تھے بہت

ہمیں نے ترکِ مراسم کی راہ اپنا لی
یہ اور بات تعلق کے راستے تھے بہت

سحر سے مانگ رہے ہیں وہ عکس خواب و خیال
چراغِ شوق جلا کر جو سوچتے تھے بہت

چھلک اُٹھے ہیں مرے صبر کے تموج سے
رفاقتوں کے جو دریا اُتر گئے تھے بہت

تھا جلوہ ریز مری خلوتوں میں اور کوئی
یہ جب کی بات ہے‘ جب تم نے خط لکھے تھے بہت

وہ تم نہیں تھے مگر ہوبہو وہ تم سا تھا
اس اعتبار پہ کل رات بھی ہنسے تھے بہت

لبوں پہ حرفِ صدا برف ہو گئے احمد
طلوعِ مہر سے پہلے تو حوصلے تھے بہت