عذاب دید میں آنکھیں لہو لہو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
میں شرمسار ہوا تیری جستجو کر کے
کھنڈر کی تہ سے بریدہ بدن سروں کے سوا
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
ملا نہ کچھ بھی خزانوں کی آرزو کر کے
سنا ھے شہر میں زخمی دلوں کا میلہ ھے
چلیں ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
چلیں ہم بھی مگر پیرہن رفو کر کے
مسافت شب ہجراں کے بعد بھید کھلا
ہوا دکھی ھے چراغوں کو بے آبرو کر کے
ہوا دکھی ھے چراغوں کو بے آبرو کر کے
زمیں کی پیاس اسی کے لہو کو چاٹ گئی
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
وہ خوش ہوا تھا سمندر کو آب جو کر کے
یہ کس نے ہم سے لہو کا خراج پھر مانگا
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
ابھی تو سوئے تھے مقتل کو سرخرو کر کے
جلوس اہل وفا کس کے در پہ پہنچا ھے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے
نشان طوق وفا زینت گلو کر کے
اجاڑ رت کو گلابی بنائے رکھتی ھے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
ہماری آنکھ تیری دید سے وضو کر کے
کوئی تو حبس ہوا سے یہ پوچھتا"محسن"
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
ملا ہے کیا اسے کلیوں کو بے نمو کر کے
No comments:
Post a Comment