اپنی رسوائی، تیرے نام کا چرچا دیکھوں
اک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہوگئ،دھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھولنے والے، میں کب تک ترا رستہ دیکھوں
ایک اک کرکے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ جو اپنا دیکھوں
تو مرا کچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات
جانے کیوں تیرے لیئے دل کو دھڑکتا دیکھوں
بند کرکے مری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بوجھے جانے کا میں ہر روز تماشا دیکھوں
سب ضدیں اس کی میں پوری کروں، ہر بات سنوں
ایک بچے کی طرح سے اسے ہنستا دیکھوں
مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رت میں مہکتا دیکھوں
پھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی ان ہونٹوں کا سایہ دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پوجا ہے، اسے بس اک بار
خواب بن کر تری آنکھوں میں اترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے مگر مرے حبیب
جی میں آتا ہے کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں