کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے
دَر کھول کے اِک تازہ تحیّر کی خبر کا
چپُکے سے کسی غم کے بہانے چلی آئے
کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں
اِک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک
زنجیرِ مہ و سال میں لپٹی ہوئیں اب تک
اب اور کسی چشم پہ وَا تک نہیں ہوتیں
خُود اپنے ہی عالم سے جُدا تک نہیں ہوتیں
سُنتے ہیں کہ اب بھی ترے آنچل کی ہوا سے
اُلجھا ہوا رہتا ہے کسی یاد کا دامن
اب بھی تری آنکھوں سے غبارِ مہ و انجم
اُڑتا ہے کہیں ابرِ گریزاں کی طلب میں
اب بھی ترے ہونٹوں پہ محبت کا الاؤ
جلتا ہے پئے لمس کہیں حجلۂ شب میں !
وہ دن بھی عجب تھے کہ کسی لہر میں سب سے
کہتے ہوئے پھرتے تھے اِسی شہر میں سب سے
اُس آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل بھی ہمارا
شانوں پہ مہکتی ہوئی وہ زلف ہماری
اور اُس سے ڈھلکتا ہوا آنچل بھی ہمارا
یہ دن بھی عجب ہیں کہ رگ و پے میں شب و روز
پھیلا ہوا اِک تازہ تغّیر کا فسُوں ہے
اب بھی اسی پابندئ آئین جنُوں میں
اپنا سرِ بازار وہی رقصِ جُنوں ہے
گزرا ہوا لمحہ بھی ہم آغوش تھا ہم سے
یہ پل جو گزرنے کو ہے، یہ پل بھی ہمارا
ہم آج کے بارے ہی میں خُوش فہم نہیں ہیں
جو تجھ کو یقیں آئے تو ہے کل بھی ہمارا
وحشت وہی، رشتہ بھی وہی دربدری سے
آوارہءِ شب روٹھ گئے تیری گلی سے