ہم عاشقِ فاسق تھے، ہم صوفئ صافی ہيں
پی ليں جو کہيں اب بھی درخورِ معافی ہيں
بيگار بھی ململ بھی گرمی ميں شب فرقت
کام آئيں گے جاڑے ميں فردِيں جو لحافی ہيں
عقلوں کو بنا دے گا، ديوانہ جمال ان کا
چھا جائيں گی ہوشوں پر آنکھيں وہ غلافی ہيں
ہم شُکرِ سِتم کرتے، کيوں شکوہ کيا ان سے
آئينِ محبت کے شيوے يہ منافی ہيں
جوٹھی بھی گورا تھی، باقی بھی غنيمت ہے
دو گھونٹ بھی ساقی سے مِل جائيں تو کافی ہيں
ہم ان کی جفا سے بھی راضی تھے مگر ناحق
اب ہو کے وہ خود نادِم سرگرمِ تلافی ہيں
جدت میں ہے لاثانی حسرت کی غزل خوانی
کیا طرفہ مطالب ہیں، کیا تازہ قوافی ہیں
No comments:
Post a Comment