محبتوں میں اذّیت شناس کتنی تھیں
بچھڑتے وقت وہ آنکھیں اُداس کتنی تھیں
فلک سے جن میں اُترتے ہیں قافلے غم کے
مری طرح وہ شبیں اُس کو راس کتنی تھیں
غلاف جن کی لحد پر چڑھائے جاتے ہیں
وہ ہستیاں بھی کبھی بے لباس کتنی تھیں؟
بچھڑ کے تجھ سے کسی طور دِل بہل نہ سکا
نِشانیاں بھی تری میرے پاس کتنی تھیں!
اُتر کے دل میں بھی آنکھیں اُداس لوگوں کی
اسیرِ وہم و رہینِ ہراس کتنی تھیں!
وہ صورتیں جو نکھرتی تھیں میرے اشکوں سے
بچھڑ کے پھر نہ ملیں ناسپاس کتنی تھیں
جو اُس کو دیکھتے رہنے میں کٹ گئیں محسن
وہ ساعتیں بھی محیطِ حواس کتنی تھیں
No comments:
Post a Comment