Saturday 7 June 2014

اب یہ سوچیں تو آنکھ بھر آئے



ان دنوں شہر بھر کے رستوں میں
تھم گئی ہے بلا کی ویرانی
عکس در عکس ڈستی رہتی ہے
بے صدا آئینوں کو حیرانی
سارے چہروں کے رنگ پھیکے ہیں
ساری آنکھیں اُجاڑ لگتی ہیں
سارے دن آہٹوں کی گنتی میں
ساری راتیں پہاڑ لگتی ہیں
بُجھتی جاتی ہیں یاد کی شمعیں
اپنی پلکوں سے آنسوؤں کے نگین
ٹُوٹتے ہیں تو دل نہیں چُنتا
جیسے شاخوں سے زرد رو پتّے
ٹُوٹتے ہیں، کوئی نہیں چُنتا
تُو کہاں ہے، کہاں نہیں ہے تُو
ہم سے کیا پوچھنا مزاجِ حیات
ہم تو بس اک دریدہ دامن میں
بھر کے خاکسترِ دیارِ وفا
لے کے صدیوں کی باس پھرتے ہیں
اِن دنوں شہر بھر کے رستوں میں
ہم اکیلے اُداس پھرتے ہیں
اب یہ سوچیں تو آنکھ بھر آئے
اِن اکیلے اُجاڑ رستوں میں
تو بھی شاید کہیں نظر آئے

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets