Wednesday, 23 November 2011

یاد ہے ؟ ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے




آ کسی شام کسی یاد کی دہلیز پہ آ 
عمرگزری تجھے دیکھے ہوۓ بہلاۓ ہوۓ
یاد ہے ہم تجھے دل مانتے تھے 
اپنے سینے میں مچلتا ہوا ضدّی بچّہ
تیرے ہر ناز کو انگلی سے پکڑ کر اکثر
نت نئے خواب کے بازار میں لے آتا تھے 

تیرے ہر نخرے کی فرمائش پر

ایک جیون کی تمناؤں کی بینائی سے
ہم دیکھتے تھکتے ہی نہ تھے
سوچتے تھے
اک چھوٹا سا نیا گھر 
نیا ماحول 
محبّت کی فضا
ہم دونوں 
اور کسی بات پہ تکیوں سے لڑائی اپنی 
پھر لڑائی میں کبھی ہنستے ہوۓ رو پڑنا 
اور کبھی روتے ہوۓ ہنس پڑنا 
اور تھک ہار کر گر پڑنے کا معصوم خوش بخش خیال 
یاد ہے ؟
ہم تجھے سکھ جانتے تھے 

رات ہنس پڑتی تھی بے ساختہ درشن سے تیرے

دن تیری دوری سے رو پڑتا تھا

یاد ہے ہم تجھے جان کہتے تھے
تیری خاموشی سے مر جاتے تھے
تیری آواز سے جی اُٹھتے تھے
تجھ کو چھو لینے سے اک زندگی آ جاتی تھی 
شریانوں میں.
تھام لینے سے کوئی شہر سا بس جاتا تھا ویرانوں میں 
یاد ہے ؟
ہم تجھے ملنے کے لیئے
وقت سے پہلے پہنچ جاتے تھے
ہم بہت دیر سے گھر آتے تو کہتے ہمیں 
کچھ نہ کہو ہم بہت دور سے گھر آۓ ہیں 
اس قدر دور سے گھرآۓ ہیں کہ شائد ہی کوئی آیا ہو 
یاد ہے ؟
ہم تجھے بھگوان سمجھتے تھے 
مگر کفر سے ڈر جاتے تھے

تیرے چِھن جانے کا ڈر

ٹھیک سے رکھتا تھا مسلمان ہمیں
آ کسی شام ، کسی یاد کی دہلیز پہ آ 
تیرے بھولے ہوئے رستوں پہ

لیئے پھرتا ہے ایمان ہمیں

اور کہتا ہے کہ پہچان ہمیں

یاد ہے ؟

ہم تجھے ایمان کہا کرتے تھے




No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets