میں کن لوگوں میں ہوں کیا لکھ رہی ہُوں
سُخن کرنے سے پہلے سوچتی ہُوں
سُخن کرنے سے پہلے سوچتی ہُوں
اُداسی مُشتہر ہونے لگی ہے
بھرے گھر میں تماشا ہو گئی ہُوں
بھرے گھر میں تماشا ہو گئی ہُوں
کبھی یہ خواب میرا راستہ تھے
مگر اب تو اذاں تک جاگتی ہُوں
مگر اب تو اذاں تک جاگتی ہُوں
بس اِک حرفِ یقین کی آرزو میں
مَیں کتنے لفظ لکھتی جا رہی ہُوں
مَیں کتنے لفظ لکھتی جا رہی ہُوں
مَیں اپنی عُمر کی قیمت پہ تیرے
ہر ایک دُکھ کا ازالہ ہو رہی ہُوں
ہر ایک دُکھ کا ازالہ ہو رہی ہُوں
غضب کا خوف ہے تنہائیوں میں
اب اپنے آپ سے ڈرنے لگی ہُوں
No comments:
Post a Comment