ہاتھ پہ ہاتھ دَھرے بیٹھے ہیں‘ فرصت کتنی ہے
پھر بھی تیرے دیوانوں کی شہرت کتنی ہے

سورج گھر سے نکل چکا تھا کرنیں تیز کیے
شبنم گُل سے پوچھ رہی تھی ”مہلت کتنی ہے!“

بے مقصد سب لوگ مُسلسل بولتے رہتے ہیں
شہر میں دیکھو سناٹے کی دہشت کتنی ہے

لفظ تو سب کے اِک جیسے ہیں‘ کیسے بات کھلے؟
دُنیا داری کتنی ہے اور چاہت کتنی ہے

سپنے بیچنے آ تو گئے ہو‘ لیکن دیکھ تو لو
دُنیا کے بازار میں ان کی قیمت کتنی ہے

دیکھ غزالِ رم خوردہ کی پھیلی آنکھوں میں
ہم کیسے بتلائیں دل میں وحشت کتنی ہے

ایک ادھورا وعدہ اُس کا‘ ایک شکستہ دل‘
لُٹ بھی گئی تو شہرِ وفا کی دولت کتنی ہے

میں ساحل ہوں امجد اور وہ دریا جیسا ہے
کتنی دُوری ہے دونوں میں قربت کتنی ہے