ہجر کی شب میں قید کرے یا صُبح وصَال میں رکھے
اچھّا مولا! تیری مرضی تو جس حال میں رکھے
کھیل یہ کیسا کھیل رہی ہے دل سے تیری محبّت
اِک پَل کی سرشاری دے اور دِنوں ملال میں رکھے
میں نے ساری خُوشبوئیں آنچل سے باندھ کے رکھیں
شاید ان کا ذِکر تُو اپنے کسی سوال میں رکھے
کِس سے تیرے آنے کی سرگوشی کو سُنتے ہی
میں نے کِتنے پھُول چُنے اور اپنی شال میں رکھے
مشکل بن کر ٹَوٹ پڑی ہے دِل پر یہ تنہائی
اب جانے یہ کب تک اس کو اپنے جال میں رکھے
No comments:
Post a Comment