Tuesday 16 October 2012

اب جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں











کتنی صدیوں سے تنِ زار تھا صحرا کی طرح
آندھیاں اتنی حوادث کی چلیں رستوں میں
دور تک ۔۔۔ دور تلک اڑنے لگی دھول ہی دھول
زرد رُو ریت سے سب مٹتے گئے نقشِ قدم
کھو گئے راستے ۔۔۔ گم ہو گیا ہر ایک سراب
بجھ گئے خاک سے سب منزلِ ہستی کے نشاں
اب اگر ابرِ تمنائے وفا کی صورت
تم جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں
ایک مدت سے مرے دل کا چمن ویراں تھا
گُل نہ کھلتے تھے ۔۔۔ شجر جھوم کے لہراتے نہ تھے
کتنے خوش لحن پرندے تھے تمنا کے یہاں
وہ اداسی تھی کہ اک نغمۂ دل گاتے نہ تھے
کیا یہاں سبزۂ خوش رنگ کی ہوتی امید
اس زمیں پر تو نمو کا بھی نہیں تھا امکاں
اب اگر معجزۂ بادِ صبا کی صورت
تم جو آئے ہو تو ٹھہرو مری جاں
کتنی راتوں سے شبستانِ محبت میں یہ خاموشی تھی
اتنی تاریک خموشی کہ نہ جلتی تھی کوئی شمعِ صدا
تن فسردہ تھا بہت ۔۔۔ دل مرا تنہا تھا بہت
چشمِ حیرانی مگر دیر تلک جاگتی تھی
دیر تک جاگتی تھی ۔۔۔ خواب میں گُم رہتی تھی
پردۂ خواب پہ تصویر کے پیکر میں نہاں
خوشبو و روشنی و صوت و صدا کی صورت
اب تم آئے ہو تو کچھ دیر کو ٹھہرو مری جاں
جانتی ہوں کہ کہاں ابرِ وفا، موجِ صبا، صوت و صدا
دیر تک ایک جگہ ٹھہرے ہیں
جانتی ہوں کہ ہر اک وصلِ دلآرام کے بعد
تن پہ اُس ہجرِ ستم گر کے نشانات بہت گہرے ہیں

No comments:

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
Blogger Wordpress Gadgets