موت سے مُکر جائیں
زندگی سے ڈر جائیں
زندگی سے ڈر جائیں
ہجر کے سمندر کو
آؤ پار کر جائیں
آؤ پار کر جائیں
راستے یہ کہتے ہیں
اب تو اپنے گھر جائیں
اب تو اپنے گھر جائیں
اِک ذرا سی مُہلت ہو
دل کی بات کر جائیں
دل کی بات کر جائیں
شہرِ عشق سے آخر
کیسے معتبر جائیں
کیسے معتبر جائیں
وہ پلٹ کے دیکھے تو
رنگ سے بِکھر جائیں
رنگ سے بِکھر جائیں
No comments:
Post a Comment