کافر عشق ہوں میں بندہ اسلام نہیں
بت پرستی کےسوا اور مجھے کام نہیں
عشق میں پوجتا ہوں قبلہ و کعبہ اپنا
اک پل دل کو میرے اس کے بنا آرام نہیں
ڈھونڈتا ہے تو کدھر یار کو میرے ایماہ
منزلش در دلِ ما ہست لبِ بام نہیں
بوالہوس عشق کو تو خانہ خالہ مت بوجھ
اُسکا آغاز تو آسان ہے پر انجام نہیں
پھانسنے کو دلِ عشاق کے اُلفت بس ہے
گہیر لینے کو یہ تسخیر کم از دام نہیں
کام ہو جائے تمام اُسکا پڑی جس پہ نگاہ
کشتہ چشم کو پھر حاجتِ صمصام نہیں
ابر ہے جام ہے مینا ہے می گلگون ہے
ہے سب اسبابِ طرب ساقی گلفام نہیں
ہائے رے ہائے چلی جاتی ہے یوں فصل بہار
کیا کروں بس نہیں اپنا وہ صنم رام نہیں
جان چلی جاتی ہے چلی دیکھ کے یہ موسم گُل
ہجر و فرقت کا میری جان پہ ہنگام نہیں
دل کے لینے ہی تلک مہر کی تہی ہم پہ نگاہ
پھر جو دیکھا تو بجز غصہ و دشنام نہیں
رات دن غم سے ترے ہجر کے لڑتا ہے نیاز
یہ دل آزاری میری جان بھلا کام نہیں