مری جان ، میری متاع جاں
!مری جان ، میری متاع جاں
تجھے یاد ہے؟
ترے ساتھ جتنے بھی ماہ و سال گزر گئے
مری جلتی بجھتی نگاہ میں سبھی ریزہ ریزہ اتر گئے
وہ جو حرف تھے مرے آنکھ میں
وہ جو آنسوؤں کے گلاب تھے
مرے درد تھے، مرے خواب تھے
مری چاہتوں کے سراب تھے
وہ فراق تھا کہ وصال تھا جو ترے خیال میں ڈھل گیا
کوئی تیر تھا جو جگر کے پار نکل گیا
یہ جو حرف حرف خیال ہیں
یہ جو برف برف وصال ، ہجر مثال ہیں
انھیں کون خیمہ خواب عمر میں راہ دے
انھیں کون حجلۂ جان و دل میں پناہ دے
کوئی اور کیوں انھیں اپنے قرب کی چاہ دے
کوئی اور کیوں ترے جسم اور مرے وجود کے درمیان ٹھہر سکے
فقط ایک میں ، فقط ایک تو
اسی کرب خواب کا ماحصل ہیں تو کس لیے
کوئی اور ہے جو ترے وجود، مرے خیال کے
درمیاں ہے رُکا ہوا
مگر آج تک مری آنکھ میں اسی ایک حرف کا
اضطراب ابد گماں ہے رُکا ہوا
وہی ایک حرف جو تیرے اور مرے ہجر کے مہ و سال کا
کوئی عکس ہے
کہ ترے فریب جمال کا کوئی عکس ہے
مگر اے مرے دل و جاں کے ہمدم و مہرباں
تجھے یاد ہے؟
کہیں ماہ و سال کے اس طرف
وہ جو کتنے ہی مہ و سال تھے
وہ گزر گئے مگر آج تک
تجھے کیا خبر!
تری یاد میں، تری چاہ میں، کوئی آنکھ دل سے بھری رہی
مگر آج تک تری آنکھ میں وہی ایک بے خبری رہی
Blogger Wordpress Gadgets
No comments:
Post a Comment