میری اتنی سی خواہش ہے
کہ میں اک آسماں ہوتا
اور تو میری زمیں ہوتی
میں جھک کر تیرے سارے غم
اپنے کاندھوں پر ڈھو لیتا
تیری تکلیفیں اور کٹھنائیاں
خود میں سمو لیتا
میرے بادلوں سے بارشیں
چھم چھم برستی تو تجھے سیراب کر دیتیں
وہ تیری پیاس کو پی کر تجھے شاداب کر دیتیں
میرے سورج کی کرنیں تجھ پر پڑتی تو
بڑی انمول ہو جاتیں
ہوا سے مل کر نئی اک شکل میں ڈھلتیں
منزل کے بول ہو جاتیں
میں تجھ سے روٹھتا تو تاریک رات ہو جاتا
مگر پھر بھی میرا چندا تیرے ہی ساتھ ہو جاتا
لیکن جاناں!
میں نے مانا
کہ ایسا ہو نہیں سکتا
نجانے کس کی سازش ہے
مگر پھر بھی میری اتنی سی
خواہش ہے
No comments:
Post a Comment